علاج کے لئے اس نبوی نسخہ کو آزمائیے

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*قارئین باتمکین!*

*حالات حاضرہ سے متعلق آج مضمون لکھنے کا ارادہ تھا ۔لیکن سفر کی وجہ سے اور طبیعت خراب ہونے کی وجہ مضمون نہیں لکھ سکا ، کچھ مہینوں پہلے مرض اور صحت سے متعلق ایک تحریر راقم نے لکھا تھا ۔ قند مکرر کے طور پر اور اس لئے بھی کہ مرض و صحت سے متعلق اسلامی تعلیمات مستحضر رہے ہدیئہ قارئین ہے ۔ ۔ *م ق ن* *صحت* ، بیماری، شفاء، زندگی اور موت وغیرہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، کسی انسان خواہ وہ نبی ولی اور اللہ تعالی کا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو اس کو بھی اس میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں سے کہلوایا کہ تم اپنی زبان سے یہ کہو،اقرار کرو اور یہ عقیدہ رکھو کہ *و اذا مرضت فھو یشفین* اور یہ کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ ذات شفا دیتی ہے ۔ دوائی اور جڑی بوٹیوں میں شفا کی طاقت بخشنے والا اور اس کے اندر بیماری کے جراثیم سے مدافعت کی قوت بخشنے والا بھی اللہ ہے وہی ذات شافی ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر چونکہ انتہائی مہربان ہے اس لئے اللہ تعالی نے کسی مرض کو لا علاج نہیں رکھا بلکہ ہر بیماری کا علاج بھی اپنی حکمت سے پیدا کردیا ۔ اس لئے بیماری کا علاج خلاف شریعت نہیں ہے بلکہ عین مطابق شریعت ہے ۔ علاج اگر اس اعتماد کے ساتھ ہو کہ شفاء دینے والی ذات صرف اللہ تعالٰی کی ہے ،اور دوا بطور سبب کے ہے ،تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود اپنا علاج فرمایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے گردن کے نیچے کمر کے بالائی حصہ پر مسموم (زہریلی) بکری کا گوشت کھانے کی بنا پر پچھنے لگوائے ۔ اور آپ نے لوگوں کو علاج پر ابھارا ہے ۔ حضرت اسامہ بن شریک سے حضرت زیاد بن علاقہ روایت کرتے ہیں کے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا، چند بدو ( دیہاتی) حاضر ہوئے ،اور انہوں نے سوال کیا، اے اللہ کے رسول! اگر ہم علاج نہ کریں تو کیا ہم پر کچھ گناہ ہوگا ؟آپ نے فرمایا ہاں! اللہ کے بندو ! تم علاج کیا کرو ،اللہ بزرگ و برتر ہے،ایک چیز کے علاوہ کوئ بیماری نہیں پیدا کی،جس کی شفا نہ اتاری ہو،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے،آپ نے فرمایا : الھرم یعنی وہ بڑھاپا ہے ۔ (ترمذی باب فی الطب) آپ نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو علاج پر ابھارا، بلکہ دوا بھی تجویز فرمائ ۔ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اور کہا میرے بھائ کو اسہال لگے ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس کو شہد پلاو،اس نے شہد پلایا اور پھر آکر اس نے کہا کہ میں نے اس کو شہد پلایا ،لیکن اس کی تکلیف بڑھ گئ ہے، تین مرتبہ آپ نے فرمایا شہد پلاو ،چوتھی مرتبہ جب آپ نے یہی فرمایا تو اس نے کہا میں نے اس کو شہد پلایا ہے، لیکن اس کی تکلیف میں اضافہ ہی ہوا ہے، آپ نے فرمایا : اللہ تعالٰی کا قول سچا ہے، اور تمہارے بھائ کے پیٹ نے خطا کی ہے ،پھر آپ نے شہد پلایا تو تکلیف دور ہوگئ ۔ ( بخاری شریف ابواب الطب) ان احادیث کی روشنی میں علامہ ابن قیم رح فرماتے ہیں : ۰۰صحیح حدیثوں میں علاج کا حکم دینا، یہ توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے کہ بھوک اور پیاس، سردی اور گرمی کو اس کی اپوزٹ چیزوں سے دور کرنا توکل کے منافی نہیں ہے ۔ بلکہ توحید کی حقیقت اسباب کو اختیار کرنے ہی سے مکمل ہوتی ہے ،جن اسباب کو اللہ تعالی نے عقلا و شرعا مسببات کے تقاضے کے طور پر متعین فرما دیا ہے ۔ (زاد المعاد ۴/۱۵) بیماری اور علاج و معالجہ کے سلسلہ میں شریعت کیا حکم دیتی ہے اور اس بارے میں کیا رہنمائ کرتی ہے اس سلسلہ کچھ ضروری باتیں اختصار کے ساتھ ہم قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *لکل داء دواء* (مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۰۴) ہر بیماری کا علاج ہے ۔ اسی حدیث میں آگے ہے : ۰۰ جب تک بیماری کے علاج (دوا دارو) تک رسائ ہوجاتی ہے تو انسان اللہ تعالی کے حکم سے ٹھیک ہوجاتا ہے ۰۰ ۔ اللہ تعالٰی نے دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر انسان کو کوئ نہ کوئ بیماری لاحق ہوتی رہتی ہے، شاید ہی کوئ شخص ہو جو بالکلیہ بیماری سے محفوظ و مامون ہو ۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیماری اگر چہ اللہ تعالٰی کے حکم سے آتی ہے جس طرح دوسرے تمام کام بھی اللہ تعالٰی کے حکم ،مرضی اور مشئیت سے ہوتے ہیں ۔ تاہم اس کا علاج اور دوا و معالجہ کرانا بھی جائز ہے ۔ علاج و معالجہ کراتے وقت بھی ایک مومن کا یہ تصور اور عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی ہی کے حکم سے شفا نصیب ہوگی ۔ دوا کے اندر شفا کی قوت اور تاثیر پیدا کرنا بھی اللہ تعالٰی کا کام ہے نہ کہ کسی دوائ کا ۔ ہاں اسباب ظاہری کے تحت علاج کیا جائے ۔ اللہ تعالٰی نے جس طرح بیماری نازل فرمائی ہے، اسی طرح دوا بھی اتاری ہے ۔ جب صحیح دوا مل جاتی ہے تو انسان اللہ تعالی کے حکم سے شفا یاب ہوجاتا ہے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا انسان بیماری سے دوچار ہوتا رہتا ہے ۔ بیماری میں انسان کو جزع و فزع اور اللہ تعالٰی سے شکوہ نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ بہت سے لوگ بیماری میں شکوہ شکایت اور نامناسب کلمات زبان سے ادا کرنے لگتے ہیں ۔ بلکہ حکم شریعت یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ بیماری میں ایک گونہ فائدہ ہے کہ انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں، لیکن ناشکری شکوہ و شکایت اور واویلا کرنے سے انسان اجر و ثواب کے بجائے گناہ کا مستحق ٹھہرتا ہے، اسی لئے بیماری میں بھی صبر و شکر تحمل و برداشت اور رضا بالقدر کا مظاہرہ ضروری ہے ۔ بیماری اور علاج و معالجہ کے سلسلہ میں فقہاء کرام نے سارے احکام و مسائل تفصیل سے بیان کر دئیے ہیں اور کوئ گوشہ تشنہ نہیں رکھا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ان احکام و ہدایات اور مسائل کو پڑھیں اور ساری طاقت صرف دوا اور علاج ہی میں نہ صرف کردیں بلکہ بیماری کی حالت میں اللہ تعالی سے تعلق مضبوط کریں ان کے سامنے روئیں شفا کی بھیک مانگیں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ اور خیرات کریں کیونکہ اس سے بیماری ختم ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: *تداوا مرضاکم بالصدقة* اپنے مریضوں کا علاج صدقے سے کرو ۔ کتنے ایسے واقعتات ہیں انسان علاج کراتے کراتے تھک ہار گیا اور زندگی سے ایک طرح سے ناامید ہوگیا لیکن کسی نے اشارہ کیا یا حدیث کی کتاب میں پڑھا کہ اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو ۔ پھر اس نے اس طریقئہ علاج کو صدق دل سے اختیار کیا غریبوں یتیموں اور مسکینوں و بیواؤں کو تلاش کر کر کے اس کی مدد کی اور ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور صدقہ و خیرات کیا تو اللہ تعالی نے ان کو موذی اور مہلک بیماریوں سے شفا یاب کر دیا ۔ مرض اور شفا یہ دونوں چیزیں بھی اللہ ہی کی قدرت میں ہے جس طرح موت حیات روزی آرام و سکون اور نفع نقصان یہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کی زبانی یہ کہلوایا کہ *و اذا مرضت فھو یشفین* میرے بندو! کہو اور جب میں بیمار ہوتا ہون تو وہی خدا شفا دیتا ہے ۔ اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک مومن بندے کو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ یہ کہنا چاہئیے اور یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ صحت اور مرض اور شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے وہی صحت و تندرستی دیتا ہے وہی بیمار کرتا ہے اور شفا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ دنیا کی کسی اور ہستی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔ دوا اور جڑی بوٹیوں میں قوت شفا دینے والی ذات بھی خدا کی ہے ۔ مرض کی حالت میں ایک مومن کو یہ تعلیم دی گئ ہے کہ وہ شکوہ و شکایت اور بہت زیادہ اہ و بکا نہ کرے بلکہ ہمت اور صبر سے کام لے تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرے،اسباب کو بھی اختیار کرے اور دوائی جڑی بوٹی کو استعمال کرے اس عقیدہ اور یقین کے ساتھ کہ اس میں بھی شفا اللہ ہی دے گا کیونکہ وہی شافی ہے ۔ اور صحت و تندرستی کی حالت میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا رہے ۔ مرض و بیماری میں ہمارے اسلاف اور اکابر کے الگ الگ معمولات و کیفیات اور الگ الگ حالتیں تھیں بندگی اور عبدیت کے الگ الگ چولے تھے لیکن سب میں تسلیم و رضا کی صورت ظاہر تھی ذیل میں *ایک حالت۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تین رنگ* کے عنوان سے اکابر کے مرض و بیماری میں الگ الگ کیفیات کو حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب دیوبندی سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کی تحریر کی روشنی میں قارئین باتمکین کی خدمت میں حاضر کر رہے ہیں ۔ *حضرت مولانا محمد احمد صاحب دیوبندی رح* لکھتے ہیں: *میں نے اپنے تین بزرگوں کو صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ برتا ہے ۔ میرے پیر و مرشد حضرت اقدس حاجی امداد اللہ صاحب، میرے والد ماجد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور میرے سرپرست اور مربی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ۔ بیماری کے معاملہ میں ان تینوں کے تین حال تھے حضرت حاجی صاحب رح کا تو یہ حال تھا کہ معمولی سی بیماری بھی آجاتی تو بہت زیادہ ہائے وایے کرتے بعض خدام نے عرض کیا کہ حضرت! یہ عبدیت کے منافی نہیں؟ تو فرمایا ۔ کیا میں اپنے اللہ کے آگے بہادر بنوں کہ آپ کا ہر امتحان و ابتلاء برداشت کرنے کی مجھ میں طاقت ہے ! مزید فرمایا کہ بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ معمولی سے معمولی ابتلاء میں بھی اپنا ضعف ،عجز ،اور بے چارگی آدمی ظاہر کردے اور عرض کردے کہ یا اللہ! میں تو بہت کمزور اور ضعیف بندہ ہوں ،مجھ پر تیری آزمائش اٹھانے کی طاقت کہاں۔ حضرت والد ماجد صاحب مولانا نانوتوی رح کے ضبط و تحمل کا یہ حال تھا کہ بڑی سے بڑی بیماری آجاتی تو کسی کو یہ احساس بھی نہیں ہونے دیتے ۔ مہینوں میں اتفاقیہ اگر ضمن کلام میں حضرت کی زبان سے کبھی اظہار ہو گیا تو پتہ چل جاتا تھا کہ کسی شدید مرض کا حملہ ہوا تھا ،ایسے موقع پر تدارک اور دفع مرض کے بارے میں کہا جاتا تو فرماتے کہ عبدیت اور فنا ہے کہ کچھ بھی ہو آدمی اف نہ کرے اور معاملہ حق تعالی کے سپرد کردے ۔ *انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ جب طبیب مطلق وہ ہے اور بیمار اور اس کی بیماری کا خبیر مطلق بھی وہی ہے تو وہی بندہ کی مصلحت سے واقف ہے،تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کرنا ہی مقام عبدیت ہے ۔ حضرت گنگوہی رح کا حال بیماری میں یہ تھا کہ نہ کراہتے نہ ساکت رہتے ،بلکہ علاج دوا اور پرہیز کی طرف خاص توجہ ہوتی اور فرماتے کہ بیماری میں علاج کا اہتمام سنت ہے اور سنت کی پیروی ہی مقام عبدیت ہے کہ آدمی اپنے طبعی جذبہ کو شریعت کے اوامر کی پیروی میں لگ جائے۔ غرض بندگی اور عبدیت کے مختلف چولے نکلے، ایک جگہ اظہار ضعف و بے چارگی کے چولے میں نمایاں ہوئ ،ایک جگہ تفویض اور تسلیم و رضا کی صورت میں ظاہر ہوئ،ایک جگہ اتباع سنت اور پیروئ شریعت کی صورت میں کھلی،گویا بیماری کی ایک حالت میں تین بزرگوں کے تین رنگ نکلے اور تینوں رنگ بلا شبہ اپنی اپنی جہت سے عبدیت کے ہی ہیں ۔ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو کبھی حضرت پیر و مرشد کے حال کی پیروی کرتا ہوں ،کبھی اپنے حضرت والد ماجد کی اور کبھی اپنے مربی اور استاد حضرت گنگوہی کے حال کی ،اور یہ تینوں حال چونکہ عبدیت کے ہیں، اس لئے میں کسی حال کی پیروی میں عبدیت اور رضا بالقضاء سے الگ نہیں ہوتا*۔ ( عظیم مدنی نمبر ،روز نامہ نئ دنیا ۲۵/ نومبر ۱۹۶۹ء) اللہ تعالی ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔