علم کی فضیلت

اللہ رب العزت نے ہر انسان کو دو نعمتوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک نعمت پھڑکتا ہوا دماغ ہے اور دوسری نعمت دھڑکتا ہوا دل ہے۔ دماغ اللہ نے علم کا برتن بنایا اور دل اللہ نے عشق الہی کا برتن بنایا۔ ان دونوں کے اندر، ان دونوں چیزوں کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ دماغ کے اندر علم کا ہونا ضروری ہے اور دل کے اندر اللہ کی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر فقط دل میں عشق الہی ہو اور اور علم نا ہو تو یہ عشق اس کو بدعت اور گمراہی کی طرف لے جائے گا۔ اگر فقط علم ہو اللہ کا عشق نا ہو تو یہ تکبر کی طرف لے جائے گا۔ یہ دونوں چیزیں ہوں گی تو دونوں ایک دوسرے کو متوازن کریں گی اور انسان اللہ رب العزت کی معرفت اور محبت کی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا۔ آج ہماری زندگی میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے ہمارے بڑے جتنی محنت آخرت بنانے کے لیے کرتے تھے آج ہم اتنی محنت دنیا بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ پہلے ہمارے بڑے اللہ رب العزت کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جتنی کوشش کرتے تھے آج ہم دنیا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اتنی کوششیں کرتے ہیں۔ تیسری چیز یہ کہ ہمارے بڑے روح کے اوپر جتنی محنت کرتے تھے آج ہم اتنی محنت جسم کے اوپر کرتے ہیں۔ نتیجتا روح کمزرو ہوچکی، عمل ختم ہو رہے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے روح پر محبت کی، دلوں پر محنت کی تو اعمال کی بنیاد پر ان کی زندگیاں ہوتی تھیں۔ آج لوگ زیادہ کھانے کی وجہ سے مرتے ہیں، پہلے کم کھانے کی وجہ سے مرتے تھے کہ محنتیں روح پر ہوا کرتی تھیں۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

*اسلام میں علم کی اہمیت* اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:میرے محبوبﷺ آپ میرے بندوں کو کہہ دیجیے کیا علم والا اور بغیر علم والا برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا اندھیرا اور روشنی برابر ہو سکتے ہیں؟ علم ایک نور ہے اور لاعلمی جہالت ہے، گمراہی ہے، اندھیرا ہے۔ قرآن مجید میں جو سب سے پہلی آیت، سب سے پہلا پیغام انسانیت کے نام جو اللہ رب العزت نے بھیجا وہ کیا تھا؟ ہم سب جانتے ہیں۔ وہ پیغام تھا " اقرا" پڑھیے۔ پڑھنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ یہاں انسان حیران ہوتا ہے کہ بھئی سب سے پہلا حکم اور وہ بھی پڑھنے کا!!! حالاں کہ توحید ایک ایسی بات ہے جو انسان کے اندر نا ہو اور وہ اللہ کی ذات میں، صفات میں وحدہ لاشریک لہ نا مانتا ہو، اللہ کی ذات میں اور صفات میں کسی کو شریک کر دیتا ہو تو وہ تو توحید والا نا ہوا۔ وہ تو جنت میں ہی نہیں جا سکتا، یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ میں ہر گناہ کو معاف کر دوں گا جس کو چاہوں گا لیکن اگر کوئی میری ذات میں یا صفات شریک ٹھہرائے گا اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ تو سب سے پہلا پیغام توحید کا ہونا چاہیے تھا کہ اس کے بغیر مغفرت ہی نہیں۔ پھر خیال آتا ہے کہ اچھا پہلا پیغام رسالت کا ہونا چاہیے تھا۔ رسالت کے کیا معنی؟ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کوآخری نبی ماننا اور پچھلے تمام انبیاء پر ایمان لانا۔ یہ ایمان لانا کہ پچھلے جتنے بھی انبیاء آئے وہ سب حق پر تھے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ آخری نبی ہیں۔ ان کی نبوت قیامت تک ہے اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس مکمل عقیدے کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ تو خیال آتا ہےکہ پہلی وہی تو رسالت کے بارے میں ہونی چائیے تھی، مگر اس کے بارے میں بھی نہیں ہے۔ پھر تیسرا بنیادی عقیدہ جو توحید اور رسالت کے بعد ہےوہ آخرت کا ہے۔ آخرت کے تصور کے بغیر انسان سیدھے راستے پر آہی نہیں سکتا۔ آج جو ہم سے غلطیاں ہو جاتی ہیں کوتاہیاں ہو جاتی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ قیامت کا دن ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ نا ہمارے اندر اس کی فکر ہے نا ذکر۔ جس کو یہ یقین ہو کہ قیامت کے دن مجھے کھڑا ہونا ہے، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ میری قبر میرے اعمال کے مطابق بنے گی۔ میرے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ کا فیصلہ ہوگا۔ میرے اعمال کے مطابق مجھے عزتیں اور ذلتیں ملیں گی تو پھر اس سے انسان سیدھا رہتا ہے۔ اور اگر قیامت کو بھول گیا تو پھر دنیا ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اس کے عمل ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ پر حیرت کی بات ہے کہ پہلی وحی نا توحید کے بارے میں اتری نا رسالت کے بارے میں اور نا ہی عقیدہ آخرت کے بارے میں نازل ہوئی بلکہ علم کے بارے میں آئی کہ "پڑھیے"۔ تو مفسرین نے ایک خوب صورت نکتہ بیان فرمایا کہ پہلی وحی علم کے بارے میں اس لیے آئی کہ اگر علم ہوگا تو توحید بھی ہے، رسالت بھی ہے اور عقیدہ آخرت بھی ہے۔ اگر علم ہی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔