حضراتِ فقہاء نے احادیثِ شریفہ اور آثار ِصحابہ ث وغیرہ کوسامنے رکھ کر عورت اورمرد کی نماز کی کیفیت میں چوبیس باتوں میں فرق رکھا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(۱) عورت تکبیر تحریمہ میں صرف کندھوں اور سینوں تک ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کو کانوں کی لو تک ہاتھ اُٹھانے کا حکم ہے۔ عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل! إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدیہا۔ (المعجم الکبیر للطبراني: ۱۴۴۹۷، رسائل غیر مقلدیت ۳۷۴) ترفع یدیہا حذاء منکبیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، ہندیہ ۱؍۷۳) (۲) عورت دوپٹہ اور چادر کے اندر سے ہاتھ اٹھائے گی جب کہ مرد کے لئے ہاتھ کو باہر نکال کر رفع یدین کرنے کاحکم ہے۔ ولا تخرج یدیہا من کمیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱) (۳) عورت اپنے سینے پر ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے لئے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا حکم ہے۔ وتضع الکف علی الکف تحت ثدیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، ہندیہ ۱؍۷۳) (۴) عورت رکوع میں معمولی سا جھکے گی، جب کہ مرد کے لئے اچھی طرح سے جھکنے کا حکم ہے۔ وتنحني في الرکوع قلیلاً۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، عالمگیری ۱؍۷۴) (۵) عورت رکوع میں گھٹنوں پر حلقہ نہیں بنائے گی جب کہ مرد کے لئے باقاعدہ ہاتھ سے گھٹنوں کو پکڑ کر حلقہ بنانے کا حکم ہے۔ ولا تعقد۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، مراقی الفلاح ۲۸۲) (۶) عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے وقت انگلیاں ملائے رکھے گی جب کہ مرد کے لئے اس وقت انگلیاں کھولنے کا حکم ہے۔ ولا تفرج فیہ أصابعہا بل تضمہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، ہندیۃ ۱؍۷۴) [10/9 8:56 بعد دوپہر] سرفرازاحمد: (۷) عورت رکوع میں گھٹنوں پر صرف ہاتھ رکھے گی جب کہ مرد کے لئے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم ہے۔ وتضع یدیہا علی رکبتیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، ہندیہ ۱؍۷۴) (۸) عورت رکوع میں گھٹنوں کو ذرا خم دے گی جب کہ مرد کے لئے گھٹنوں کو خم دینا منع ہے۔ ولا تخي رکبتیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، عالمگیری ۱؍۷۴) (۹) عورت کے لئے قیام ورکوع میں اپنے دونوں ٹخنوں کو ملانا بہتر ہے۔ (تحفۃ النساء ۱۰۵) جب کہ مرد کے لئے دونوں ٹخنوں کے درمیان چار انگل کے بقدر فاصلہ رکھنا افضل ہے۔ (۱۰) عورت رکوع اور سجدے میں سمٹ کر رہے گی جب کہ مرد کے لئے ہر عضو کو الگ الگ رکھنے کا حکم ہے۔ عن إبراہیم قال: کانت تؤمر المرأۃ أن تضع ذراعیہا وبطنہا علی فخذیہا إذا سجدت ولا تتجافی کما یتجافی الرجل لکي لا ترفع عجیزتہا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ ۱؍۲۴۲) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً: … وإذا سجدت ألصقت بطنہا بفخذہا کاستر ما یکون لہا۔ (کنز العمال ۷؍۲۲۳ رحمانیہ لاہور، رسائل غیر مقلدیت ۳۷۵) وتنضم في رکوعہا وسجودہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، ہدایۃ ۱؍۱۱۰) (۱۱) عورت کے لئے سجدہ میں دونوں قدم کھڑے کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ وہ بیٹھے بیٹھے زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے گی جب کہ مرد کے لئے دونوں پیروں کو کھڑا کر کے انگلیوں کو قبلہ رخ کرنے کا حکم ہے۔ إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان، فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست في ذٰلک کالرجل۔ (مراسیل أبی داؤد ۸، السنن الکبریٰ ۲؍۳۱۵، بحوالہ تحفۃ النساء ۱۰۶، مستفاد شامی زکریا۲؍ ۲۱۱، بدائع الصنائع ۱؍۴۹۴) (۱۲) عورت سجدے میں اپنی کہنیوں کو بچھا کر رکھے گی جب کہ مرد کے لئے کہنیوں کو اٹھا کر رکھنے کا حکم ہے۔ وتفترش ذراعیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، بدائع الصنائع ۱؍۴۹۴) (۱۳) عورت تشہد میں ’’تورّک‘‘ کرے گی یعنی دونوں پیر دائیں جانب نکال کر بیٹھے گی جب کہ مرد کے لئے دایاں پیر کھڑا کر کے بائیں پیر پر بیٹھنا مسنون ہے۔ إذا جلست المرأۃ في الصلوٰۃ وضعت فخذہا علی فخذہا الأخریٰ الخ۔ (سنن بیہقي ۲؍۲۲۲) وتتورک في التشہد۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، ہدایہ ۱؍۱۱۱، شرح وقایہ ۱؍۱۴۸) (۱۴) عورت تشہد کے وقت اپنی انگلیاں ملاکر رکھے گی جب کہ مرد کے لئے انگلیاں اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے۔ وتضم فیہ أصابعہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱) (۱۵) اگر جماعت میں کوئی بات پیش آئے توعورت الٹے ہاتھ سے تالی بجاکر متوجہ کرے گی جب کہ مرد کے لئے ایسی صورت میں بآواز بلند تسبیح وتکبیر کاحکم ہے۔ وإذا أنا بہا شیئ في صلوٰتہا تصفق ولا تسبح۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱) (۱۶) عورت کے لئے کسی مرد کی امامت جائز نہیں جب کہ مرد کے لئے عورتوں کی امامت جائز ہے۔ ولا تؤم الرجل۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، طحطاوی ۲۸۸) (۱۷) عورتوں کی جماعت مکروہ ہے جب کہ مردوں کی جماعت پسندیدہ اور مسنون ہے۔ وتکرہ جماعتہن۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱) (۱۸) اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی امام صف ہی کے اندر بیچ ہی میں کھڑی ہوگی، جب کہ مرد امام کے لئے آگے کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ ویقف الإمام وسطہن۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱)
(۱۹) عورتوں کے لئے جماعت میں شرکت ناپسندیدہ ہے جب کہ مردوں کے لئے جماعت سنتِ مؤکدہ ہے۔ ویکرہ حضورہا الجماعۃ۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، مراقی الفلاح مع الطحطاوی ۳۰۴) (۲۰) اگر عورتیں جماعت میں شریک ہوں تو ان کو مردوں کے پیچھے کھڑا ہونا ضروری ہے جب کہ مردوں کے لئے آگے کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ وتؤخر مع الرجال۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، مراقی الفلاح ۳۰۶)
(۲۱) عورتوں پر جمعہ فرض نہیں جب کہ مردوں پر لازمی ہے۔ ولا جمعۃ علیہا۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱، مراقی الفلاح ۵۰۳) (۲۲) عورتوں پر عید کی نماز واجب نہیں جب کہ مردوں پر لازم ہے۔ ولا عید۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱) (۲۳) عورتوں کے لئے فجر کی نماز اسفار (روشنی) میں پڑھنا مستحب نہیں (بلکہ انہیں اول وقت فجر کی نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے) جب کہ مردوں کے لئے اسفار میں پڑھنا افضل ہے۔ ولا یستحب أن تسفر بالفجر۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱) (۲۴) جہری نماز میں عورتوں کے لئے جہر جائز نہیں جب کہ مردوں کے لئے جہر جائز ہے اور امام کے لئے واجب ہے۔ ولا تجہر في الجہریۃ۔ (شامی زکریا ۲؍۲۱۱)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔