عید الاضحٰی عشق و وارفتگی سے تعبیر ہے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(992)
*عید الاضحٰی عشق و وارفتگی سے تعبیر ہے-*

*عید الاضحٰی قربانی، عشق، وارفتگی اور سب کچھ لٹادینے سے تعبیر ہے، ایک عاشق جو اپنے محبوب کی چاہت میں حدود و ثغور کی پرواہ نہ کرے، زمینی مسافتیں، خلائی وسعتیں، موسم کا ستم، زمانے کا غم اور خودی کی کشمکش جس کے سامنے ہیچ ہو، دنیاوی غرض تو دور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پیش کردینے؛ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ قیمتی جان جو کسی اپنے عزیز کی ہو، جگر گوشے کی ہو، جو بڑھاپے کی امید، زندگی کا سرمای،ہ، آنکھوں کا نور، سینے کی ٹھنڈک اور روح کی تسکین ہو، اسے بھی راہ محبت میں قربان کردیا جائے، زمانے کو چھوڑ کر، دنیا کی ہر خواہش کو روند کر انسانوں کی تمام مادی ترقی و دیوانگی سے بے پرواہ ہو کر ایک ہی محبوب کو سب کچھ مانتے ہوئے؛ دل کاٹ کر دیدے، تو بس سمجھ جائیے وہی عید الاضحٰی ہے، اللہ کے نبی مکرم حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا نہ کیا؟ اپنے پالنہار کو تلاش کیا، اس کی جستجو میں سرگرداں رہے، در در کے بعد مقام حق نصیب ہوا پھر اسی حق کی پاداش میں زمانے کو ٹھوکر ماردی، دنیا کی محبت کو پیروں تلے کچل دیا، تن تنہا عظیم طاقتوں سے بھڑ گئے، وحدانیت و یکتائی طاقت کو مانتے ہوئے ہر طاغوت کے مدمقابل ہوگئے، عراق، شام، مکہ مکرمہ غرض دنیا کی عظیم سلطنتوں، زندگی کے اعلی ترین معیاروں کو پس پشت ڈال کر وقت کے سپر پاور اور ظالم خونخوار سے دو بدو ہوگئے، دہکتی آگ میں ڈالے گئے، اپنوں کے تازیانے سہے، بیگانوں کے طعنے برداشت کئے.*
*تاہم جسم کا امتحان اگرچہ پاس کرلیا؛ لیکن سوزش عشق کا امتحان باقی تھا، والد کا بغض، نفرت بھی برداشت کرنا پڑا، بیوی کی ہمسائیگی، ہمسفری اور دلداری سے الگ ہوئے، اولاد جو ساری قربانیوں میں راحت کا باعث تھا، جو ٹوٹتی زندگی اور بکھرتے جذبات کیلئے سنبھالا تھا، اس کے گلے پر چھری پھیرنے کا حکم ہوا؛ مگر درجہ احسان پاچکا وہ پاکباز کیسے پیچھے رہتا، اللہ تعالیٰ کی محبت و سوز کا مارا بھلا کیسے محبوب کے حکم کی تعمیل نہ کرتا؛ چنانچہ چشم فلک نے دیکھا کہ ایک شفیق باپ نے اپنے ہی لخت جگر کی گردن پر چھری رکھ پھیرنے کو تیار ہوگیا، مگر غیب سے آواز آتی ہے آہ___ ابراہیم تیری محبت پر جہاں فدا، تیری اطاعت و سرافگندگی پر خلعت خلیل اللہ کا عطیہ اور جنت الفردوس کا یہ ذبیحہ؛ بلکہ رہتی دنیا تک تجھے اسوہ بنایا جاتا ہے، تجھے امامت سپرد کی جاتی ہے، تجھے جد انبیاء کا عہدہ دیا جاتا ہے، واقعتاً آج وہی عشق کی گرماہٹ ہے؛ کہ پوری دنیا اس کے قدموں پر چل رہی ہے، اولاد کی جگہ جانور قربان کرتے ہیں، خون بہاتے ہیں، نیکیاں کماتے ہیں، رضائے الہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر اس پیغام کو یاد کرتے ہیں جو دلوں کو اجالا کرتا ہے، صاف ستھرا کرتا ہے، خواہشات کو مارنے پر ابھارتا ہے، انسانیت کیلئے رحمت بننے اور باد بہاری بننے پر آمادہ کرتا ہے، پوری دنیا ایک زبان ہو کر تکبیر الہی کہتی ہے، ایمان سے سرشار ہوتی ہے، اپنے رب کو یاد کر کے خود کی قربانی پیش کرنے کا عہد کرتی ہے.*
*حقیقت یہ ہے کہ عید قرباں کوئی عام جشن و خوشی نہیں اور ناہی کوئی رسم و رواج ہے، یہ بات الگ ہے کہ بعض نادانی علمی شمع سے دور، ایمانی جوش و حمیت سے پرے لوگ اسے عام خوشی یا تہوار سے تشبیہ دیتے ہیں، جانور کی قربانی کو گوشت خوری کا ذریعہ مانتے ہیں، معاذ اللہ __ امید ہے کہ یہ خواب و خیال ہو اور ان کے دل منقی، مجلی و مصفی ہوں، یاد رکھئے! قربانیاں جان کا فدیہ ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا؛ کہ اپنی جان فدا کردی جائے، رب ذوالجلال کے سامنے سر جھکا کر اپنی گردن پیش کردی جائے؛ لیکن یہ اس کی مہربانی ہے کہ بدل پر اکتفا کرتا ہے، وہ جذبہ قربانی کو یاد دلا کر اور روح کو تازہ کرکے رب کی حضور سپردگی کا ہی مکلف کرتا ہے؛ مگر کیا غم ہو کہ راہ عشق میں جان لٹادی جائے، یہی اس امت کا مقدر ہے، اگر یہ امت جان کا بوجھ اٹھاتی پھرے گی، اسے امانت نہ مان کر دنیاوی عیش و عشرت میں یونہی پڑی رہے گی، تو اس کا مقدر یونہی رسوا ہوتا رہے گا، آج دنیا کا ہر کونہ مسلمانوں کیلئے تنگ ہوتا جاتا ہے، دنیا کی محبت اور موت سے کراہت پیدا ہوتی جاتی ہے، اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو برائے نام برت کر زندگی دنیا کے حوالے کردی گئی ہے، خوب سمجھ لیں اور خاص طور پر عید قرباں کے موقع پر یہ جان لیں!! کہ دنیا عارضی ہے، آپ کی جان و مال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اسی کی جانب سے اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے، اگر زندگی میں موج و مستی کو ہی ترجیح دی گئی، نفس کو نہ مارا گیا، خود کو تھکایا نہ گیا تو ممکن ہے؛ کہ قیامت کی تاریکی میں تھک جائیں، اس دن قربانی لے لی جائے، جب نہ جان جائے گی اور نہ جان آئے گی؛ بلکہ وہ تڑپ تڑپ کر ہمیشگی کی زندگی پر کف افسوس ملتا رہے گا، اے لوگو__!! بس تیار ہوجاؤ، ایمان کی دولت حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیل اللہ علیہ الصلاۃ و السلام کے اسوہ کو مان لو، اور انہیں کی راہ پر جی جان لگا دو___!!*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
01/08/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔