عید روزہ کا شکرانہ اور خدا کی کبریائی کا اظہار ہے

محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

تاریخ و سیرت کے مطالعہ ????✏ سے معلوم ہوتا ہے کے اسلام سے پہلے لوگ دو دن تہوار کے طور پر منایا کرتے تھے، نیروز اور مہرجان اور یہ دونوں تیہوار غالباً موسم بہار???? کی آمد و رفت سے متعلق تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا کہ ہم لوگ دو دن کھیل کود کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس سے بہتر دو دن مقرر کردئیے ہیں ایک عید الاضحیٰ اور دوسرا عید الفطر۔

عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ یہ لفظ عود سے بنا ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، چونکہ یہ دن ہر سال لوٹ کر آتا ہے اس لیے اسے عید کا دن کہا جاتا ہے۔

عید کا تصور بڑا قدیم ہے، ہر اس یاد گار دن کو عید کہتے ہیں جس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشی اور جشن منائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جادوگروں سے جب مقابلہ ہوا تو اس کے لیے ایک دن متعین ہوا، جس کو قرآن نے یوم الزینیۃ زینت کا دن کہا، جو قوم فرعون کا یادگار اور میلہ کا دن تھا، حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے جب مائدہ (آسمانی کھانا) کا مطالبہ کیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کے اصرار پر یہ دعا فرمائی، ربنا انزل علینا مائدة من السماء تکون لنا عیدا لاولنا و آخرنا و آیة منک و ارزقنا و انت خیر الرازقین۔ اے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت آسمانی دسترخوان نازل فرما جو ہمارے گزشتہ و آیندہ لوگوں کے لیے عید ہو آپ کی طرف سے ایک نشانی۔ اور ہمیں روزی دیجئے، آپ بہترین رزق عطا فرمانے والے ہیں۔

ایک موقع پر ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ لوگوں کے قرآن مجید میں ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ اگر ہم یہودیوں کے یہاں نازل ہوتی، تو اس دن کو ہم عید کا دن بنا لیتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :

ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کب کہاں اور کیسے نازل ہوئی، عرفہ کے دن، عصر کے وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹی ???????? پر سوار تھے، نازل ہوئی اور اس سے بڑی یادگار کیا ہوسکتی ہے۔ ( راہ عمل، ص ١١٧)

ایک مشہور اور متفق علیہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لکل قوم عیدا و ھذا عیدنا / ہر قوم کے لیے ایک عید ہے اور یہ ہماری عید ہے۔

آج بھی ہر قوم میں خوشی و مسرت، فرحت و سرور رونق و بہجت اور گرم جوشی کے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی دن اور طریقہ موجود ہے، جس میں لوگ باہم خوشی اور ارتباط و تعلق کا اظہار کرتے ہیں، بعض قوموں میں ہر ماہ اور ہفتہ اس کے لیے کوئی دن متعین ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والے کو خوشی کے اظہار کے لیے دو دن دئیے ہیں جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔

اسلامی تیہوار میں توحید اور خدا پرستی کی جھلکیاں صاف دکھتی ہیں اس میں ہم سارے جہان سے الگ ہیں، دوسری قومیں عید اور تیہوار کے دن وہ طوفان بدتمیزی مچاتی ہیں کہ خدا کی پناہ، عیسائی کرسمس کے دن لہو و لعب میں اور ہندو لوگ ہولی میں موج و مستی میں اس طرح مشغول ہوجاتے ہیں کہ گویا اس دن ہر ناجائز بھی ان کے یہاں جائز ہوجاتا ہے۔ ان کے لیے یہ دن اس طرح گزرتا ہے کہ شاعر کا یہ کہنا بالکل درست اور صحیح ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واں ہر گناہ ثواب ہے آج

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری ہر عید کسی بڑی عبادت یا کسی بڑے فرض کے بعد آتی ہے، عید الاضحیٰ فریضئہ حج اور عید الفطر ماہ رمضان کے روزے کی تکمیل کے بعد آتی ہے۔اور مقصد یہ ہے کہ ان فرائض و عبادات کی ادائیگی کے بعد اللہ تعالی کی عظمت و کبریائی بیان کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے اس اہم فرض کی ادائیگی کی توفیق دی۔ لتکبروا اللہ علی ماھدی کم و لعلکم تشکرون۔

علماء نے لکھا ہے کہ :

عید کا دن شکر کا دن ہے اور عید کی نماز شکر کی نماز ہے۔ جب انسان کو کوئی نعمت ملے تو اس کا تقاضا شکر ہے، شکر نعمت کا اعتراف ہے، احسان شناسی کا اظہار ہے اور اعلی ظرفی کا معیار ہے، شکر ایمان ہے اور ناشکری کفر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں الشکر نصف الایمان، شکر آدھا ایمان ہے ۔ کافر کی پہچان یہ ہے کہ جب اسے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے اور جب کوئی چیز چھن جائے تو گلہ شکوہ کرتا ہے، جب کہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی نعمت اسے ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے، اور اگر چھن جائے تو صبر کرتا ہے، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ نعمت کا ملنا اور چھن جانا دونوں کا تعلق اس کی آزمائش و امتحان ہے۔ ۔ ۔۔۔

عید کا دن اللہ تعالیٰ کی روحانی نعمتوں کے ساتھ مادی نعمتوں کے اظہار کا بھی اچھا موقع ہے، عمدہ کھانا، عمدہ لباس، اور عمدہ ماحول عید کے دن کی زینت ہیں۔ ان کا اظہار ہونا چاہیے۔ عید الفطر کے موقع پر اللہ کی نعمت اور اس کی عنایت و توفیق پر اس کا شکر ادا کرنے کا ایک اظہار یہ ہے کہ مسلمان عید کی خوشی سے تنہا محظوظ نہ ہو بلکہ فقیروں مسکینوں اور ضرورت مندوں کو اس میں شریک کرنے کی بھرپور کوشش کرے، رمضان میں فطرہ اسی لیے لازم کیا گیا ہے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

عید کے دن جائز کھیل اور تفریح کی خاص طور پر اجازت ہے، شریعت کا حکم ہے کہ اس دن خوش رہو اور دوسروں کو بھی جوش رکھو، اپنے افعال و کردار سے خوشی ظاہر کرو چہرہ اور حلیہ پر مسرت ظاہر ہو۔ بچے بھی خاص طور پر خوشیاں منائیں چنانچہ بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میرے پاس دو بچیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اشعار گنگنا رہی تھیں، دف بجا رہی تھیں کہ اچانک گھر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف اور یہ دیکھ کر ان کو ڈانٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر! رہنے دو خوشی کا دن ہے( راہ عمل، ص، ١١٨)

ہماری عیدیں صرف اظہارِ مسرت کھیل کود اور تفریح کا دن نہیں ہے بلکہ اس کی اجازت ہے اصلا یہ عبادت اور اور خدا کی اطاعت و بندگی کے اظہار کا بھی دن ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد رح نے کیا حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔

'"وہ (عید)محض سیر و تفریح، عیش و نشاط، لہو و لعب کا ذریعہ نہیں، وہ تکمیل شریعت کا ایک مرکز ہے، وہ سطوت خلافت الہی کا مظہر ہے وہ توحید و وحدانیت کا منبع ہے، وہ خالص نیتوں اور پاک دلوں کی نمائش گاہ ہے، اس کے ذریعہ سے ہر قوم کے مذھبی جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اگر وہ اپنی اصلی حالت میں قائم ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب اپنی قوت کے ساتھ زندہ ہے، اگر وہ مٹ گئی ہے یا بدعت و خرافات نے اس کے اصلی مقاصد کو چھپا دیا ہے تو یقین کرلینا چاہئے کہ اس میں مذھب کا چراغ بجھ رہا ہے"

(بحوالہ راہ عمل' ص، ١١٩)

نوٹ مضمون کا آخری حصہ کل ملاحظہ فرمائیں

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔