???? *صدائے دل ندائے وقت*????(837)
*غدار قائدین کے حربے __!!*
*سی اے اے اور این آر سی وغیرہ کے قوانین نے اگرچہ افراد تفری مچا رکھی ہے، سکون وچین کافور کردیا ہے؛ لیکن اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ نام نہاد قائدین کے چہرے سے مکھوٹا اتا?? لیا گیا ہے، تقریباً ستر سالوں سے اپنے آباء و أجداد اور اسلاف کے کارناموں پر اپنی بلند وبانگ عمارتوں کی بنیاد رکھنے والے اپنا سر چھپاتے پھر رہے ہیں، اب ان کے وجود کا بھی مسئلہ ہے، عوام اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ خواہ وہ سیکولرازم کی چادر میں لپٹا ہوا کوئی سیاست دان ہو یا پھر اسی فکر کے ساتھ جبہ، دستار اور قبا میں ملبوس کوئی دینی وضع قطع کا شخص ہو، ہر ایک کے اندر لگ بھگ امت کو لیکر نفس پرستی، عہدہ پرستی اور خود پرستی کا پرتو ہی پایا جاتا ہے، اس میں سبھوں کو شامل کرنا یقیناً ناانصافی کی بات ہوگی؛ لیکن عموم کا یہی حال ہے، اپنی ظاہری وضعداری اور خاندانی شرافت کا حوالہ دے کر ایک زمانے سے لوگوں کو بیوقوف بنانے والے اور قیادت کے نام پر ودھان سبھا، لوک سبھا اور راجیہ سبھا تک پہونچنے والے، نیز سیاسی پارٹیوں، جماعتوں اور Get to gether میں جانے والے، نیوز چینلز میں جاکر پورے ہندوستان کا نام لیکر ان کی نیابت کرنے والے اب الٹے پاؤں پلٹ چکے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی سرنگ میں روپوش ہوگئے، یا کسی وادی تیہ میں بھٹک گئے ہیں.*
*اب کوئی بیان بھی جاری نہیں کرتے، نہ کسی احتجاج کا حصہ ہوتے ہیں؛ بلکہ اکثر یہ دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ انہوں نے یا پھر ان کے نقش پا کو مقدس، طاہر و مطھر جاننے والوں نے ملک و آئین کیلئے ہورہے احتجاجی مظاہروں کو بند کروانے کوشش کی ہے، یا کہیں کہ سازش کی ہے، اکثر ریاستوں میں شاہین باغ بن چکے ہیں، جن میں یوپی کے اندر کانپور، لکھنؤ اور علی گڑھ تو وہیں حیدرآباد سے ایسی خبریں موصول ہورہی ہیں؛ کہ امت کے قائدین ہی اس کی تحریک و تسلسل کو آگ لگا رہے ہیں، منافقت کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے مخلصین کو دھمکیاں بھی دی ہیں، اور اس سلسلہ میں دل وجان سے لگے رہنے والے نوجوانوں کو برطرف کرنے اور ان کے دلوں میں موجودہ حکومت کا خوف بٹھانے کی پوری کوشش کی ہے، مسلم ایکتا منچ کے ذریعے تو باقاعدہ بی جے پی کے ایجنڈے کو سپورٹ کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، سبھی کا یہی حال ہے، اگر اس وقت وہ خواتین اور جامعات و کالجز کی بچیاں نہ ہوتیں جنہیں گوشہ چشم سے دیکھا جاتا رہا ہے اور ان کے دینی احوال پر انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے، تو یقین جانیں__! اس قانونی جنگ میں ہم کب کے پچھڑ گئے ہوتے، کسی عام آدمی کی طرح کاٹ دئے گئے ہوتے، ہمارا وجود خطرے میں ہوتا اور آپ کسی لائن میں کھڑے ہو کر اپنے وجود کا بوجھ اٹھائیے پھر رہے ہوتے، سرکاری ملازمین کے یہاں دھکے کھارہے ہوتے، یا اب تک ڈیٹینش سینٹر کی زینت بن گئے ہوتے.*
*حقیقت یہ ہے کہ اس کامیاب احتجاجی مظاہرے کو اب یہ قائدین اچکنا چاہتے ہیں، اور اپنی لچھیدار تقریروں کے ذریعے سبھی کو ورغلا کر اپنی من مرضی رخ دینا چاہتے ہیں، کانفرنس کر رہے ہیں، جمہوریت کو بچانے کے گھریال آنسو بہا رہے ہیں، امت کی سالمیت اور ملک کے تحفظ ک حوالہ دے رہے ہیں، دہلی میں فسادات کی مذمت کر کے مزید اسے مستقبل کیلئے سبق بتا رہے ہیں، گویا ہراساں کرنے اور اپنے پیر پیچھے لے لینے کی ترکیبیں بتا رہے ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ وہ اپنی ہمدردی میں اپنی غداری دکھا جاتے ہیں، اکثر و بیشتر ان کی تقاریر کا اقتباس اخبار و رسائل میں اسی نقطہ نظر سے پیش کیے جاتے ہیں، وہ سپریم کورٹ کی بات کرتے ہیں تو کبھی سیاست دانوں سے بات کرنے کی گہار لگاتے ہیں، آزادی میں اپنی قابلیت کے قصے سناتے ہیں یا پھر گھروں میں بیٹھ جانے کا حکم دیتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ماضی کا رونا روتے ہیں، اور آزادی ہند میں اپنے کردار بیان کر کے دھونس جماتے ہیں، تو وہیں یہ حسین خواب وخیال بھی دکھاتے ہیں؛ کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس ملک میں دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ محفوظ ہیں، بلکہ بہت سے احادیث سے بھی اس کی فضیلت ثابت کرکے سبھی کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.*
*اسی طرح بعض وہ سیاست دان بھی جن کی نیت کی ضمانت نہیں؛ لیکن اپنی حرکتوں سے یہ صاف ظاہر کرتے پیں، کہ وہ بھی منافق ہی ہیں، ملک میں ہندو مسلمان فسادات کروانے اور عوام کی گردن پر تلوار چلوابے کے روادار ہیں، وہ تعداد کی بات کرتے ہیں، قوت بازو کی بات کرتے ہیں، شاید ان بیوقوفوں کو معلوم نہیں کہ جب ہتھیار کی بنیاد پر جنگ کی جائے، تو تیاری ہی سب کچھ پوتی ہے، قوت کا زور جس طرف ہو اسی کو فتح ملتی ہے، اسی نادانی میں مسلمان اس کا خمیاز نہ جانے کتنی دفعہ بھگت چکے ہیں، آزادی ہند کے بعد سے سینکڑوں دنگے وفسادات اور ان میں مسلم ماؤں اور بہنوں کی لاشیں ان کی بے حرمتی اور قتل عام کو کیوں بھول جاتے ہیں، شاید اسی کی یاد دہانی کیلئے دہلی فسادات کی عبارت لکھی گئی ہے، یہ نابلد لوگ خود مضبوط سیکورٹی میں رہتے ہیں، اعلی زندگی گزارتے ہیں، پھر بھی نہ جانے کیوں عوام کی زندگی، دو وقت کی روٹی، اور ان کی شب وروز پر چھپٹا مارتے ہیں، واقعی یہ منافقین ہی ہیں جنہو نے اس امت کو گہری فکر وسوچ سے دور رکھا ہے، سطحی فکر اور بے مقصد زندگی سے جوڑ رکھا ہے، ان کے اندر نہ تو تعلیم عام ہونے دی اور ناہی کسی فکری تصلب کو پنپنے دیا، آج وہ بے یار ومدد گار ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اندرونی و خارجی ہر اعتبار سے محاذ جنگ پر کھڑے ہیں، ان کا وجود ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے، اگر وجود کی فکر کی جائے تو پیٹ اور پیٹھ کے فاصلے کو برقرار رکھنے کیلئے دانہ دانہ کی محتاجی اور بے کسی کی نوبت آگئی ہے، خدا ان ظالموں کو ہر گز معاف نہ کرے گا، جنہوں نے معصوموں کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا، اور اپنی سیاست و برتری بنائے رکھنے کیلئے منافقت کی تمام حدیں پار کردیں.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
28/02/2029