غیروں کی مشابہت مرعوبیت کی دلیل ہے

از: محمد قمر الزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ قرآن و حدیث کی تعلیمات اور اسلامی ہدایات کی رو سے کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ غیروں کی راہ و روش پر چلے اور کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، دوسروں کی مشابہت اور رسوم و رواج میں ان کی تقلید یہ ذھنی مرعوبیت، پستی اور محکومیت کی علامت اور پہچان ہے، غیروں کے طریقے اور ان کے شعار اور خصوصیات اختیار کرکے انسان دوسروں کی ذھنی غلامی اختیار کرتا ہے، وہ اسلامی کردار کے لیے گویا موت ہے۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کو دوسری قوم کی مشابہت سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں، جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں سے ہے۔۔۔ *من تشبہ بقوم فھو منھم* (مسند احمد/ ابو داود) مذکورہ حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی قوم کی مشابہت اختیار کریں اور کسی قوم سے اس درجہ متاثر و مرعوب ہوجائیں کہ وہ بالکل اسی قوم کے لوگوں کا رہن سہن، بود و باش، لباس و پوشاک، طرز و عادت طور و طریقہ، انداز فکر ،اخلاق و عادات اور رسوم و رواج اختیار کرلیں کہ ان کی اپنی انفرادیت اور پہچان و شناخت باقی نہ رہے۔۔۔۔ غیر مسلموں کے شعار اور طریقے کو اختیار کرنے کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے دینی تشخص اور اسلامی تہذیب کا کچھ پاس و لحاظ نہیں رہا۔۔۔ ہم دوسروں کی تہذیب، دوسروں کے کلچر، دوسروں کی ثقافت و رواج اور ان کے رسوم کو دل سے پسند کرتے ہیں،۔۔۔ آدمی کی شناخت اور اس کی پہچان اس کی پسند اور ناپسند اس کے ذوق و رجحان سے ہی ہوتی ہے۔۔ غیروں کے شعار اور ان کی خصوصیات کو اختیار کرکے آدمی اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ وہ اپنی پسند اور ذوق و جذبہ کے لحاظ سے ان ہی کے ساتھ ہے اور یہ اسلامی کردار اور اسلامی تشخص کے لیے کسی موت سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کسی قوم کی کوئی مفید چیز لینا اس حدیث کے منافی نہیں ہے۔۔ ہم دوسروں کی جدید ٹکنالوجی اور دریافت اور تحقیقات سے فائدہ اٹھائیں، شریعت اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے، بلکه ترغیب دیتی ہے، کہ علم و حکمت مومن کی گمشدہ دولت ہے، جہاں کہیں اور جس سے ملے ضرور حاصل کرے۔۔۔ لیکن خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص غیر قوم کی تہذیب و اخلاق اور اس کے رہن سہن کی پیروی اس طرح کرنے لگ جائے کہ اسے اس کی مطلق پرواہ ہی نہ ہو کہ اس سے اس کا ملی امتیاز اور وقار باقی رہ سکتا ہے یا نہیں۔۔۔ آج ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کس قدر غیروں کی مشابہت اختیار کئے ہوئے ہیں؟ لباس میں بود و باش میں عادات و اطوار میں اور رسوم و رواج میں برادران وطن کی کس قدر تقلید کئے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دینی تعلیم یافتہ گھرانے میں جہاں مشترک رہن سہن ہے، وہاں بھی عورتیں کھل کو نائٹی پہن کر رہتی ہیں ، جو خالص ہندوانہ لباس ہے یا صرف رات کے حصے میں عورت کے لیے اپنے شوہر کے آرام کے کمرے میں پہننا جائز ہے ، یا سپریٹ نظام میں جہاں باشعور بچے نہ ہوں اور غیر محرم کی آمد نہ ہو اس گھر میں عورت کے لیے اس کی گنجائش ہے۔مرض اور حمل کی حالت میں بھی عورت آسانی کے لیے پہن سکتی ہے ۔۔ مرد کا گلے میں ہار پہننا، ہاتھ میں بندھن یا دھاگہ باندھنا، دھوتی کے مشابہ پائجامہ پہننا، کان چھیدوانہ،لباس میں ہیرو لوگوں کی کٹنگ اختیار کرنا، غیروں کی طرح بال کی تراش و خراش اور نہ جانے کتنے طریقے ہیں جس میں ہم غیروں کی مشابہت اختیار کئے ہوئے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہے۔۔۔ علماء اور بعض غیرت مند اور باشعور لوگ اگر لوگوں کو منع کرتے ہیں، تو ان پر دقیانوسی اور جمود و کٹر پسندی کا الزام لگاتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ آج اکثر گھرانے سے احساس زیاں بھی ختم ہوتا جارہا ہے، ضرورت ہے کہ ہم شریعت کو اور اس کے مزاج و مذاق کو خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں اور لوگوں میں دینی مزاج اور اسلامی طرز زندگی اپنانے کے لیے انتھک کوشش کریں۔۔۔۔ خدا کرے یہ بات سمجھ میں آجائے اور ہم اس کے لیے ایک مہم چھیڑ دیں کہ مسلمان غیروں کی مشابہت اور ان کی تقلید سے بچیں اور اپنی شناخت کو کسی طرح مٹنے نہ دیں۔۔۔۔۔۔نوٹ کون سی چیز مشابہت کے دائرے میں آتی ہے اور کون سی چیز نہیں آتی ہے؟ اس کی تفصیلات ہم کسی اور موقع پر بیان کریں گے، ساڑھی،( بہار اور بنگال کی عورتوں کے لیے)ٹائی، اور پینٹ شرٹ وغیرہ کے بارے میں علماء نے جواز کا فتویٰ دیا ہے اور اس کو مشابہت سے الگ مانا ہے، اگر اس سے بے پردگی نہ ہو اور لباس کے اصول و ضوابط کے خلاف نہ ہو۔۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔