*????سوال وجواب????*
????مسئلہ نمبر 1254????
(کتاب الصید والذبائح، باب صرف الجلود)
*غیر اللہ کے نام پر مذبوحہ جانور کی کھال مدرسہ میں دینا*
(١) کیا غیراللہ کے نام سے ذبح کیا گیا جانور کا چرم مدارس میں دے سکتے ہیں (مولانا نبی صاحب غنی اعجازی )
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*الجواب و باللہ التوفیق*
غیر اللہ کے نام پر جانور قربان کرنا شرعاً حرام ہے، شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ وغیرہ نے ایسا کام کرنے والے کے ارتداد کا بھی حکم لکھا ہے، اس لیے غیر اللہ کے نام پر جانور قربان کرنے سے بچنا ضروری ہ، تاہم اگر غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کر دیا تو ذبح کرنے سے وہ جانور مردار ہوجایے گا، اس کا گوشت استعمال کرنا درست نہیں ہوگا، لیکن مردار کی کھال اگر دباغت دے دیں تو وہ پاک اور قابل استعمال ہوجاتی ہے، مذکورہ بالا صورت میں بھی صفائی کرنے سے کھال قابل استعمال ہوسکتی ہے اس لیے دباغت کے بعد اس کو مدرسہ میں دینا درست ہے، دباغت سے قبل ناپاک ہونے کی وجہ سے اس کا صدقہ درست نہیں ہوگا (١)
????والدليل على ما قلنا????
(١) عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ : مَاتَتْ شَاةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِهَا : " أَلَا نَزَعْتُمْ جِلْدَهَا ثُمَّ دَبَغْتُمُوهُ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ ". (سنن الترمذي رقم الحديث ١٧٢٧ أَبْوَابُ اللِّبَاسِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ)
قال الإمام محمد رحمه الله في موطئه بعد ذكر حديث : إذا دبغ الإهاب فقد طهر . وبهذا نأخذ إذا دبغ إهاب الميتة فقد طهر وهو ذكاته ولا بأس بالانتفاع به ولا بأس ببيعه ، وهو قول أبي حنيفة والعامة من فقهائنا رحمهم الله انتهى. (تحغة الاحوذي رقم الحديث ١٧٢٧ أَبْوَابُ اللِّبَاسِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ)
"قال العلماء :لو أن مسلمًا ذبح ذبیحةً، وقصد بذبحها التقرب إلی غیر الله صار مرتدًّا، فذبيحته ذبيحة مرتد". (غرائب القرآن علی هامش جامع البیان، ج:2، ص:120، ط: دارالمعرفة بیروت)
’’ذبح کردن جانور بنام غیر خدا خواہ پیغمبر باشد خواہ ولی خواہ شھید خواہ غیر انسان، حرام است ،و اگر بہ قصد تقرب بنام اینھا ذبح کردہ باشد ، ذبیحہ آن جانور ھم حرام و مردار میشود ،و ذبح کنندہ مرتد میشود‘‘. (فتاوی عزیزی، ج:1، ص:50، ط:کتب خانہ رحیمیہ)
و هل يشترط لطهارة جلده كون ذكاته شرعية بأن تكون من الاهل في المحل بالتسمية قيل نعم و قيل لا و الأول اظهر.... و إن صح الثاني. (رد المحتار على الدر المختار 358/1 كتاب الطهارة باب المياه)
فان كان جلده لا يحتمل الدباغة فكذلك، لأن جلده حينئذ بمنزلة اللحم و إلا فيطهر جلده فقط. (رد المحتار على الدر المختار 358/1 كتاب الطهارة باب المياه)
*كتبه العبد محمد زبير الندوى*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ9/1/1442
رابطہ 902618288
*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔