*⚖️سوال وجواب⚖️*
????️مسئلہ نمبر 1328????️
(کتاب الصوم باب الفدیۃ)
*فدیہ کی رقم اسلامی اسکول کی تعمیر میں لگانا*
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارےمیں کہ کسی شخص کے پاس کچھ مال فدیہ رقم کی شکل میں موجود ہے اور وہ شخص اس مال سے ایسےعلاقہ میں ایک اسلامی اسکول قائم کرنا چاہتاہے جونہایت ہی پسماندہ علاقہ ہونے کےساتھ ساتھ مسلم بچوں دین وایمان سے دورہوتے جارہےہیں تو کیا وہ شخص ایسے علاقہ میں فدیہ کی رقم سے اسلامی اسکول قائم کرسکتاہے یا اس رقم کو اسکول کے کام میں صرف کرنے کی کوئی اورشکل ہے؟ تو برائے مہربانی مدلل جواب تحریر کریں۔
(المستفتی محمدمرتضی، گڈا جھارکھنڈ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
فدیہ کا حقیقی مصرف وہی ہے جو زکوۃ اور دیگر صدقات واجبہ کا ہے؛ یعنی فقراء ومساکین میں تقسیم کرنا؛ چنانچہ جس طرح زکوٰۃ کی رقم کو مسج??، مدرسہ اور اسکول کی تعمیر میں لگانا درست نہیں ہے اسی طرح فدیہ کی رقم کو اسکول وغیرہ کی تعمیر میں بھی نہیں لگا سکتے ہیں، یہ رقوم فقراء ومساکین کا خصوصی حق ہے قرآن مجید میں بھی انہیں کو مقدم رکھا گیا ہے؛ اس لیے کوشش یہی ہو کہ اس قسم کی رقوم سے فقراء ومساکین کی امداد ہو، ہاں جہاں حالات بہتر نہ ہوں اور تعاون کی رقم سے دینی کاز اور مدارس و مکاتب اور اسلامی اسکول کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں تو وہاں تملیک کے بعد فدیہ وغیرہ کی رقم بھی استعمال کی جاسکتی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
*????والدليل على ما قلنا ????*
(١) إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلۡفُقَرَاۤءِ وَٱلۡمَسَـٰكِینِ وَٱلۡعَـٰمِلِینَ عَلَیۡهَا وَٱلۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡ وَفِی ٱلرِّقَابِ وَٱلۡغَـٰرِمِینَ وَفِی سَبِیلِ ٱللَّهِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِیلِۖ فَرِیضَةࣰ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ﴾ [التوبة ٦٠]
و..... كما هو المقرر في صدقة الفطر (الفقه ٤٩٤/٣ كتاب النذر)الاسلامي و ادلته للزحيلي
و مصارف الفدية و النذور المطلقة و الكفارات و الصدقات الواجبة: هي مصارف الزكاة. (الفقه الاسلامي و ادلته ١٧٥٤/٣ كتاب الصوم، المبحث الثامن، المطلب الثالث)
*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 29/3/1442
رابطہ 9029189288
*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔