قسم کے بجائے ”کسم“ کہنے سے قسم کا حکم

اگر کوئی شخص قصداً قسم کےبجائے کسم کا لفظ استعمال کرے اور اس سے اس کا ارادہ قسم کھانے کا نہ ہو ،اور اسی لیے اس نے یہ غلط لفظ استعمال کیا ہو تو اس سے قسم منعقد نہیں ہوگی، لیکن دھوکا دہی یا حق چھپانے کی نیت سے یا "اللہ کے نام کی قسم" کو معمولی سمجھتے ہوئے اس طرح کرنا روا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا نام انتہائی مقدس اور باعظمت ہے، اللہ تعالیٰ کا پاک نام لے کر ارادۃً قسم کے الفاظ غلط کہنا اللہ تعالیٰ کے نام کی بے ادبی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص قسم کھانے کے ارادے سے یہ جملہ کہہ دے، یا اس علاقے کا عرف اس طرح ہوگیا ہو کہ الفاظ کی ادائیگی میں "ق" اور "ک" میں فرق نہ کیا جاتاہو، اور وہ لوگ اس لفظ سے قسم کا ہی ارادہ کرتے ہوں، یا ناواقف شخص قسم کھانے کے ارادے سے قسم کو کسم کہہ دیتا ہو تو اس سے قسم معتبر ہوجائےگی۔واللہ اعلم بالصواب۔ (مستفاد: فتاوی بنوریہ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 18):" (وألفاظ مصحفةكتجوزت) لصدوره لا عن قصد صحيح بل عن تحريف وتصحيف، فلم تكن حقيقةً ولا مجازاً لعدم العلاقة بل غلطاً فلا اعتبار به أصلاً، تلويح، نعم لو اتفق قوم على النطق بهذه الغلطة وصدرت عن قصد  كان ذلك وضعاً جديداً فيصح، به أفتى أبو السعود. وأما الطلاق فيقع بها قضاء كما في أوائل الأشباه الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 704) ناقل✍ہدایت اللہ قاسمی خادم مدرسہ رشیدیہ ڈنگرا،گیا،بہار HIDAYATULLAH TEACHER MADARSA RASHIDIA DANGRA GAYA BIHAR INDIA نــــوٹ:دیگر مسائل کی جانکاری کے لئے رابطہ بھی کرسکتے ہیں CONTACT NO 6206649711 ????????????????????????????????????????????????

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔