موجودہ دور میں زبان سے زیادہ مؤثر قلم ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک اچھا لکھنے والا، اچھا مقرر بھی بن سکتا ہے ،کیوں کہ اس کے پاس معلومات کا خزانہ اور بہترین تحریری مواد ہوتا ہے، تحریری صلاحیت خاص طور سے طالب علموں کے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہے، جب امتحان گاہ میں سوالوں کا جواب یاد ہونے کے باوجود تحریری جامہ نہیں پہنا پاتے ہیں اس وقت اس کمی کا بہت احساس ہوتا ہے۔۔!!
کچھ طالب علم یہ سمجھتے ہیں کہ مافی الضمیر کو تحریری جامہ پہنانا بہت مشکل ہے، جسکی وجہ سے وہ کتابوں کا بہت رٹا لگاتے ہیں، حالانکہ کسی بھی عنوان کو تحریری جامہ پہنانا بہت آسان ہے، جب بھی آپ کسی عنوان پر تحریر کرنا چاہیں، تو پہلے اس عنوان کے متعلق مکمل تحقیقات کرلیں، پھر اس کو اپنے الفاظوں میں ترتیب دیں ترتیب دیتے وقت یہ خیال رہے کہ ایک جملہ دوسرے جملہ سے اس طرح مربوط ہو جس طرح زنجیروں کی کڑیاں ایک دوسرے سے مربوط ہوتی ہیں ، خیالات میں ربط نہ ہونا اور انتشار کا پایا جانا تحریر کا سب بڑا عیب ہے، ہر پیراگراف اپنے پہلے پیراگراف سے فکری سطح پر جڑا ہونا چاہیے، تحریری صلاحیت کا فائدہ صرف امتحان کے دنوں میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ زندگی بھر یہ ہنر آپ کے کام آئیں گے ۔۔۔!!
آپ کی ایک تحریر نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دے ، اس احساس اور ذمہ داری کے ساتھ لکھیں کہ واقعی آپ کے پاس کوئی ایسا میسیج ہے جو آپ کو لوگوں تک پہنچانا ہے، لکھا ہوا لفط بہت دور تک جاتا ہے، یکے بعد دیگرے ہزاروں آدمی اسکا مطالعہ کرتے ہیں ممکن ہے کہ آپ کی تحریر کسی کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن جائے اور یہی آپ کے اخروی نجات کے لئے کافی ہوجائے۔۔۔!!
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورۂ قلم کی آیت "الذی علم ِبالقلم" کے تحت تحریر فرماتے ہیں۔۔
افسوس ہے کہ ہمارے اس دور میں علماء و طلباء اس اہم ضرورت کو ایسا نظر انداز کیا ہے کہ سینکڑوں میں دو چار آدمی بمشکل تحریر وکتابت کے جاننے والے نکلتے ہیں ۔۔۔!!(۸/۷۸۶)
احباب ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ آپ تحریر عربی اور فارسی زبان میں ہی لکھیں بلکہ اردو زبان بھی کافی ہے، حضرت کشمیری کی سوانح نقش دوام ( از انظر شاہ صاحب ) میں مرقوم ہے کہ ایک شاگرد نے عربی میں مقالہ لکھ کر اصلاح کےلئے آپ کے سامنے پیش کیا تو یہ کہتے ہوئے واپس کردیا۔۔
مولوی صاحب! ہندوستان میں اسلام کی خدمت کرنی ہے تو اردو میں لکھیے ۔ اردو میں پڑھیے ۔۔!!( ص: ۲۶۹ )
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تحریری صلاحیت پر خاص توجہ دیں، اس دور میں قلم سب سے زیادہ مؤثر اور مقبول ذریعہ ابلاغ ہے، اس تحریری سفر کا آغاز ڈائری سے کریں اور روزانہ کے معمول پر اپنی ڈائری لکھیں، ڈائری میں روز مرہ کے معمولات اور مطالعہ سے ماخوذ قیمتی باتیں رقم کریں، ان شاء اللہ چند مہینوں میں آپ کو اسکا نتیجہ دیکھنے کو ملیگا۔۔!!
جہاں ہزاروں مؤرخین نے آپ ﷺ کی سیرت پر بے شمار نایاب کتابیں تصنیف کیں، کیا پتہ آگے چل کر ہمارا بھی ان میں شمار ہوجائے ۔۔۔!!