قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

از ، محمد ہارون قاسمی

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے دو راستے رہے ہیں ایک جہاد کا راستہ دوسرا وعظ و نصیحت کا راستہ جہاں اسلام جہاد کے راستے سے پھیلا ہے وہاں وہ اپنی اصلی اور اوریجنل شکل میں پہنچا ہے اور جہاں اسلام وعظ و نصیحت کے ذریعہ پھیلا ہے وہاں وہ اکثر شرک اور جاہلیت میں خلط ملط ہوگیا ہے ۔۔ ہندوستان پر صدیوں تک مسلمانوں کی حکمرانی کے باوجود یہ سچائی ہے کہ یہاں ابتدا ہی سے اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادیں کمزور رہی ہیں یہاں اسلام اپنی حقیقی روح کے ساتھ کبھی بھی مضبوطی کے ساتھ جڑ نہیں پکڑ سکا اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ صدر اول کے اسلامی مجاہدین کے ذریعہ سندھ کی ابتدائی فتح کے بعد جو مسلم فاتحین یہاں آئے ان میں اکثریت اور بہت بڑی اکثریت ان لوگوں کی تھی جو صرف زمین کے فاتح تھے وہ اسلام کے فاتح نہیں تھے ان کی جنگی مہمات کا زیادہ تر مقصد توسیع مملکت تھا اسلام کی توسیع اور اسلامی تہذیب کا غلبہ ان کے پیش نظر نہیں تھا ۔۔ تاہم مسلمانوں کا دور حکومت اسلام کی دعوت و تبلیغ کیلئے ایک نہایت زرین اور سازگار دور تھا ایک طرف ملک کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا اور لوگ اپنے بادشاہوں کے دینوں کو بہت آسانی سے قبول کرلیتے ہیں اور اکثر ان کی تہذیب و تمدن کو اختیار کرنے پر فخر کرتے ہیں ۔۔ دوسری طرف دنیا پر اسلام کا غلبہ تھا اور مغلوب قوموں کی زندگی پر غالب مذہب کے اثرات لازمی طور پر پڑتے ہیں اسی کا نتیجہ تھا کہ بعض اوقات اگر کوئی ایک شخص مسلمان ہوتا تھا تو اس کا پورا پورا خاندان پورا پورا قبیلہ اور پوری پوری بستی مسلمان ہوجاتی تھی ایسے سازگار حالات میں اگر مسلمان حکمراں اسلام کی تبلیغ و توسیع کی طرف ذراسی بھی توجہ دیتے تو شاید اس پورے خطہ کی تصویر بالکل مختلف ہوتی اور ہندوستان اسلام کا ایک عظیم مرکز ہوتا ۔۔ مگر ان جاہل حکمرانوں نے یہ تابناک اور نادر موقع انتہائی لاپرواہی سے گنوادیا اور ہندوستان پر صدیوں کی حکمرانی کے باوجود یہاں مسلمان اقلیت ہی میں رہے اور اسلام یہاں غالب مذہب کی حیثیت اختیار نہ کرسکا البتہ کچھ علماء اور صوفیاء نے یہاں اسلام کی بڑی اعلی اور گراں قدر خدمات انجام دیں ان کے ہاتھوں پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہو ئے مگر ان نا اہل حکمرانوں نے اتنا بھی نہیں کیا کہ وہ اسلام قبول کرنے والے ان نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کا کوئی بہتر انتظام ہی کردیتے نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی پر کشش دعوت سے متاثر ہوکر لوگ جوق در جوق کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہوگئے مگر ان کی اسلامی تربیت نہیں ہوسکی وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھ سکے اور اسلام اپنی کنہ و حقیقت کے ساتھ ان کی زندگی میں نہیں اتر سکا اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان ہوجانے باوجود وہ ساری جاہلانہ رسوم و روایات اور مشرکانہ اوہام و خرافات ان کی زندگی میں موجود رہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی زندگی میں پائی جاتی تھیں ۔ اور یوں یہاں ہندوویت اور جاہلیت سے مرکب ایک نیا عجمی اسلام وجود میں آگیا ۔ ذات برادری کے نام پر اونچ نیچ کی تفریق مردوں اور زندوں سے اندھی عقیدت راہبانہ تصوف کی بدعت موروثی تقلید کی لعنت تحقیق و تنقید کی حرمت اور جہاد و اجتہاد کی ممانعت اسی عجمی اسلام کی جدید خصوصیات میں شامل ہیں اور آج تک ہندوستان میں یہی اسلام رائج چلا آرہا ہے ۔ مسلمان حکمرانوں نے اپنی محکوم ہندو قوم کے ساتھ حد درجہ رواداری کا سلوک کیا اور ان کی بے جان اور فرسودہ تہذیب کو بہت حد تک تحفظ فراہم کیا جس کا نتیجہ تھا کہ ہندو قوم کے صدیوں تک مغلوب رہنے کے باوجود یہاں ہندو تہذیب کبھی مغلوب نہیں ہوئی وہ مسلم اقتدار کے زیر سایہ بھی پوری آزادی کے ساتھ پھلتی پھولتی رہی اور اندر ہی اندر قوت حاصل کرتی رہی اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب قریب تھا کہ ہندو تہذیب اسلامی تہذیب کو نگل جائے گی اور ہندوستان سے اسلام کا خاتمہ ہوجائےگا کیوں کہ وقت کا طاقتور حکمراں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر اپنی قومی تہذیب کو خیرباد کہہ کر اسلام سے دست بردار ہوچکا تھا اس نے دین الہی کے نام سے ایک نیا دھرم ایجاد کردیا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام ہندو مسلمان ایک قوم ہیں لہذا ان کا دھرم اور ان کا کلچر بھی ایک ہی ہونا چاہئے ۔۔ یہ بڑا ہی خطرناک فتنہ تھا یہ اسلام کےلئے بڑا نازک وقت تھا کیونکہ عموما قومیں اپنے بادشاہوں کے دین پر چلنا پسند کرتی ہیں اور انہیں کے طرز زندگی کو اختیار کرتی ہیں تاتاری حکمرانوں نے ہی تو اسلام قبول کیا تھا جن کی متابعت میں پوری تاتاری قوم مسلمان ہوگئی تھی خطرہ تھا کہ کہیں پوری مسلمان قوم ہی ایمان کی متاع گراں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔۔۔ مگر خدا ہزارہا رحمتیں کرے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی پر کہ سرمایہ ملت کا یہ نگہبان انجام سے بے خوف ہوکر اس طوفان بلا خیز کے مقابلے میں اٹھا اور ملت کی ڈوبتی اور ڈگمگاتی کشتی کو بچا لے گیا وقتی طور پر قوم مسلم اس آفت کبری سے بچ گئی لیکن اس کے جراثیم کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہو سکا تھا ۔ مسلمانوں کے اندر وہ ساری خرابیاں اور کمزوریاں بدستور موجود تھیں جو اس فتنہ کا اصل سبب بنیں تھیں اورنگزیب رح کی طاقتور اسلامی شخصیت ان کو دبائے ہوئے تھی لیکن جیسے ہی قصر اسلامی کا یہ آخری محافظ دنیا سے رخصت ہوا وہ ساری خرابیاں اور کمزوریاں یکلخت باہر آگئیں جس کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ سات سمندر پار سے آئی ایک اجنبی قوم نے مسلمانوں سے ملک کا اقتدار چھین لیا اور ان کو اپنا غلام بنالیا فاتح انگریز دنیا کی ایک زندہ اور غالب قوم تھی وہ صرف زمین کے فاتح نہ تھے بلکہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور اپنی تہذیب کا غلبہ بھی ایک مقصد کے طور پر ان کے پیش نظر تھا ۔ اب مسلمانوں کے سامنے پہلے سے بھی زیادہ نازک صورت حال تھی اب نہ دنیا پر اسلام کا غلبہ تھا اور نہ ملک پر مسلمانوں کا اقتدار تھا اور اب ان کو دو سخت حریفوں کا سامنا تھا ایک طرف حکمراں انگریز مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کو مٹادینا چاہتے تھے دوسری طرف ہندو اکثریت مسلمانوں کے قومی و مذہبی امتیازات کو فنا کردینے پر کمر بستہ تھی تاہم مسلمان قوم ابھی زندہ تھی ابھی اس میں زندگی کی حرارت موجود تھی اور اسے سر پر منڈلا رہے خطرہ کا احساس تھا لہذا وہ اپنے قومی وجود کے تحفظ کیلئے پوری قوت کےساتھ مزاحمت کر رہی تھی ۔ لیکن یہاں اس سے ایک بڑی چوک یہ ہوئی کہ وہ اپنی ساری قوت و توانائی صرف ایک محاذ پر یعنی انگریز کے خلاف صرف کرتی رہی جبکہ دوسرے حریف یعنی ہندو کی سازشوں اور شرارتوں سے وہ یکسر غافل اور بے پرواہ ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عین اس وقت جب انگریز کے خلاف ڈیڑھ سو سالہ مزاحمت اپنے کامیاب منطقی انجام کو پہنچ رہی تھی اور ایک روشن صبح کے آثار نمودار ہوریے تھے ملک کے اندرونی حریف نے مسلمانوں کے خلاف ایک سخت محاذ کھول دیا کانگریس پارٹی مسلمانوں کی سیاست کی قبر کھودنے اور ان کے قومی وجود کو نگل جانے کی جستجو میں لگی تھی ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس جیسی ہندو قوم پرست تنظیمیں وجود میں آچکی تھیں شدھی کرن کی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا اور اس سب سے بڑھ یہ کہ وہی فتنہ دین الہی اب متحدہ قومیت کے ایک نئے عنوان کے ساتھ ایک بار پھر نمودار ہوچکا تھا اور اس بار یہ فتنہ اپنے اثرات اور نتائج کے لحاظ سے ماضی سے کہیں زیادہ خوفناک شکل اختیار کرگیا تھا جس کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ اس بار اس کا ظہور کسی بددین اکبر کے جاہل دماغ کے اختراع کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس بار اس کا صور خود وقت کے مجدد الف ثانیوں کی طرف سے پھونکا گیا تھا جن کا مسلک تھا کہ قومیں مذہب سے نہیں بلکہ وطن سے بنتی ہیں یعنی جس طرح جرمن جاپان اور امریکہ میں رہنے والے لوگ وطنی اور جغرافیائی حدود کی بنیاد پر ایک قوم ہیں اسی طرح ہندوستان میں رہنے والے تمام ہندو مسلمان بھی ایک قوم ہیں ۔ ان نادانوں کو اتنا بھی علم نہ تھا کہ اسلام تو قومیت کے اس جاہلی تصور کو مٹانے کے لئے آیا ہے اقبال رح نے اس فتنہ سے خبر دار کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت گئی اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی متحدہ قومیت کا یہ ملحدانہ نظریہ محض کسی عام نیشنیلٹی کے ہم معنی نہیں تھا بلکہ اس کا ایک خاص مآل تھا اور اس کے ایک مخصوص معنی تھے اور یہ در اصل درج ذیل چھہ نکات یعنی 1 ایک ملک 2 ایک قوم 3 ایک مذہب 4 ایک تہذیب 5 ایک زبان 6 ایک آئین پر مبنی انگریز کی تخلیق شدہ کانگریس پارٹی اور ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کا مشترکہ ایجنڈا تھا جس کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی تشخصات اور تہذیبی امتیازات کو مٹا کر ان کے قومی وجود کو ہندووانہ کلچر میں تحلیل کردیاجائے ۔۔ تقسیم وطن کے وقت ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان اس خطرناک سازش کا صحیح ادراک نہ کرسکے اور وہ ملت فروش گروہ کی سازش کا شکار ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے بجائے ہندو کے سایہ رحمت میں سکونت اختیار کرنے میں سعادت سمجھی اور پھر جو ہونا تھا وہی ہوا پہلے ان کی سیاسی روح کو فنا کیا گیا پھر معاشی اعتبار سے ان کی کمر توڑی گئی ان کو ہزاروں فسادات کے زخم دئیے گئے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی تاریخی عبادت گاہ کو ڈھایا گیا گجرات میں ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی تین طلاق بل کے ذریعہ ان کے پرسنل لاء میں مداخلت کی گئی اور اب بالآخر ان کے وجود کی شہ رگ(وطنی شہریت) پر ہی تلوار رکھدی گئی ہے ۔۔ سی اے اے این آر سی اور این پی آر موت کے وہ پھندے ہیں جنہیں شاطر صیاد نے بہت سوچ سمجھکر تیار کیا ہے مسئلہ ودیشی غیر مسلموں کو شہریت دینے کا نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی وطن کا وفادار حکمراں ودیشی لوگوں کو شہریت دینے کے لئے اپنے ہم وطن لوگوں کا خون نہیں بہا سکتا اور نہ اپنے ملک کو آگ اور شعلوں میں جھونک سکتا ہے مسئلہ آپ کی شہریت چھینے جانے کا بھی نہیں ہے کیونکہ پچیس کروڑ مسلمانوں کو نہ کسی دوسرے ملک میں دھکیلا جاسکتا ہے اور نہ اتنی بڑی تعداد کو ڈیٹینشن کیمپوں میں رکھا جاسکتا ہے اصل مسئلہ آپ سے آپ کی قومی شناخت کو چھیننے اور آپ کو ہندو دھرم میں واپس لانےکا ہے ۔ اور اسلام دشمن قوتوں کا یہ ایجنڈا کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے آپ کو یاد ہوگا قریب تین سال قبل آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ہندو جاگرن سمیتی کے صدر راجیشور سنگھ نے صاف صاف اعلان کیا تھا کہ ہم 31 دسمبر 2021 تک ہندوستان سے اسلام اور عسائیت کا خاتمہ کردیں گے اور خود آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص ہندو ہے آپ مسجد جائیں چرچ جائیں گردوارہ جائیں (سر دست اجازت ہے) مگر خود کو ہندو تسلیم کریں ۔ یہ ہے اصل منصوبہ جس کی تکمیل کے لئے شہریت سے متعلق موجودہ قوانین نہایت کارگر ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں ذرا تصور کیجئے کہ اس وقت کیا حال ہوگا کہ جب این آر سی کے ذریعہ کروڑوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرکے یا این پی آر کے ذریعہ ان کو ڈاوٹ فل (مشکوک شہری) قرار دیکر ان کی جائداد سے ان کو محروم کردیاجائے گا ان کے جملہ حقوق سلب کرلئے جائیں گے اور وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کےلئے ملک کی انصاف پرور عدالتوں کے چکر لگا رہے ہوں گے مگر وہاں سے بھی انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہ مل سکے گا اور ان تمام مصائب و مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ کھلا ہوگا ۔۔۔گھر واپسی کا راستہ ۔۔ ہندو بنجائیے آپ کی ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی آپ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ۔۔۔ سوچئے اس وقت مصیبت زدہ پریشان حال اور کمزور مسلمانوں میں کتنے اہل عزیمت ہوں گے جو اپنے دین و ایمان کو بچا سکیں گے ؟؟؟ آج ان کے پاس اپنے دیرینہ منصوبہ کی تکمیل کا ایک نادر اور سنہرا موقع ہے ان کے پاس طاقت ہے اقتدار ہے پولیس ہے فوج ہے عدالت ہے میڈیا ہے اور ہندو اکثریت کی تائید و حمایت ہے انہیں احساس ہے کہ آج نہیں تو پھر کبھی نہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تمام تر داخلی اور خارجی دباو کے باوجود ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔۔ دوسری طرف آپ کے لئے بھی یہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے اگر آج آپ نے خطرہ کا صحیح ادراک نہ کیا اور اپنے تحفظ کیلئے کوئی کارگر اور موثر تدبیر نہ سوچی تو آپ اپنا قومی وجود نہیں بچا سکیں گے اور آنے والی نسلوں کو اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔۔ موجودہ طوفان کے مقابلے کےلئے محض شاہین باغ کافی نہیں ہر فرد ملت کو گھر سے نکلنا ہوگا ہر طرح کے تشدد اور وائلینس سے اجتناب کرتے ہوئے اور آئین ہند کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے قومی وجود کے تحفظ کیلئے اجتماعی طور پر آواز بلند کرنی ہوگی محض دعاوں اور قنوت نازلاوں سے حالات نہیں بدلیں گے بزدلوں نامردوں اور منافقوں کےلئے آسمان سے فرشتوں کے لشکر نہیں اتر تے نصرت خداوندی ہمیشہ دلیروں بہادروں اور حق پرستوں کےلئے اترتی ہے ۔۔ رہبران قوم اور بہی خواہان ملت اب اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچیں کہ یہ ملک و ملت کو بچانے کا وقت ہے وہ اٹھیں اور سول نافرمانی اور جیل بھرو جیسی تحریک کا آغاز کریں کہ ملک و ملت بچاو تحریک کا یہ صحیح وقت ہے ۔۔ حالات نازک سہی لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں جس خدا پر آپ کا ایمان ہے وہ خدا آج بھی اپنی تمام تر طاقت و قوت کے ساتھ موجود ہے اس پر یقین اور بھروسہ رکھئے مومنانہ فراست کا ثبوت دیجئے اور اپنا موروثی مجاہدانہ کر ادا کیجئے انشاءاللہ تعالی بہت جلد یہ پر ہیبت تاریکیوں کے سائے چھٹیں گے اور ایک نیا سورج طلوع ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔