???? *صدائے دل ندائے وقت*????(874)
*لاک ڈاؤن _ اب کسان ہی سنبھالیں گے!!*
*ملک اکیس دن کے لاک ڈاؤن پر ہے، آئندہ کیسے حالات ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر نوکری، مینوفی??چرنگ اور پرائیویٹ سیکٹر کی کمر ٹوٹنے والی ہے، ویسے بھی ان میادین کی کو??ی خاص حالت نہ تھی، پہلے ہی جی ڈی پی ساڑھے چار پر آچکا تھا، لیکن صحیح معنوں میں سب سے زیادہ دشواری کسان بھائیوں اور متوسط گھرانوں کے ساتھ ہے، یا پھر خط افلاس سے نیچے جینے والے افراد اصل دقتوں کے ساتھ جوجھ رہے ہیں، کسانوں کیلئے یہ وقت گیہوں کاٹنے کا ہے، فصل کھیت میں تیار ہے، مگر دقت یہ ہے کہ وہ اناج کو قابل انتفاع نہیں بنا سکتے، سرکار ویسے بھی ان کی پرواہ نہیں کرتی، اگر کھیت سے اناج نہ نکالا گیا تو بھاری نقصان کا اندازہ ہے، متوسط گھرانے اور خط افلاس کے مارے تو بھوک سے ہی مرے جاتے ہیں، مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں کسان ہی سب سے زیادہ معاون و مددگار ہیں، ان ہی کی اگائی ہوئی سبزیاں اور اناج سے پورا ملک منتفع ہوگا، ورنہ اعلی تعلیم یافتہ اور تاجروں کی بات ہی نہ کیجئے، ملک میں ان کی تعداد صرف نو فیصد ہے، یعنی وہ مینوفیکچرنگ نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ضرور ہوں گے؛ لیکن ایسے لوگوں کی کثرت نہیں ہے، ملک میں سب سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے ہیں، اسی کڑور تو خود سرکار نے قبول کیا ہے، مگر یہ شرح ٩٢/ فیصد تک جاتی ہے.*
*سینئر صحافی پونیا پرسون واجپائی نے بہت خوب تجزیہ کیا ہے، ذرا آپ بھی دیکھیں __ ملک کا سب سے بڑا صوبہ اترپردیش ہے، جہاں ساڑھے تین کڑور لوگ خط افلاس سے نیچے جیتے ہیں، اور ڈھائی کروڑ عام کسان ہیں، ان چھ کڑور لوگوں کو ان کے گھر کے ساتھ جوڑا جائے تو لگ بھگ اٹھارہ کروڑ لوگ ہوتے ہیں، جو عام ضرورت سے بھی محروم ہیں، بہار میں دو کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے رہنے والے ہیں، جبکہ ساڑھے باسٹھ لاکھ عام کسان ہیں، ان میں تقریباً نوے فیصد لوگ عام ضرورت کیلئے پریشان ہیں، جن میں دو ہزار روپئے بھی چار مہینے کیلئے کافی ہوجاتے ہیں، مہاراشٹر میں دو کروڑ انیس لاکھ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، اور ایک کروڑ عام کسان ہیں، تقریباً ٤٥_ سے ٤٨ فیصد لوگ عام ضرورت پوری کرنے کیلئے کوشاں ہیں، آندھرا پردیش بھی پیچھے نہیں ہے، گجرات کی حالت نازک ہے، جس کا ترقیاتی ماڈل پیش کرتے ہوئے بی جی پے تھکتی نہیں ہے، اس کی کیفیت یہ ہے کہ ایک کروڑ سولہ لاکھ لوگ خط افلاس سے نیچے رہتے ہیں، پچاس لاکھ عام کسان ہیں، تو وہیں چھ کروڑ لوگوں کی حالت تشویشناک ہے، بنگال میں دو کروڑ، ایم پی میں ڈیرھ کروڑ...... لگ بھگ پورے ملک کی یہی حالت ہے، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بھارت میں ہر تیسرا آدمی غریب ہے، جنہیں دو وقت کی روٹی چاہیے، بعض صوبوں میں تو ہر دوسرا آدمی غربت کی انتہائی درجہ میں پہونچا ہوا ہے.*
*اب اس غریبی میں بس ایک ہی آواز ہے کہ کیسے دو وقت کا کھانا نصیب ہوجائے، اب ہر ایک کو رسد کی ضرورت ہے، جو ملک کا کسان ہی پہونچا سکتا ہے، اب زندگی انہیں کے اگائے ہوئے اناج پر چلے گی، اب کمپنیاں بند ہیں، امیزون سے کچھ نہیں ہوگا، کے ایف سی سے بھی کوئی امید نہیں ہے، اب تو بس اناج چاہیے، چنانچہ جیسے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا، تو بھارت سرکار نے FCI میں رکھے ہوئے اناج میں سے سب سے پہلے ایک ملین ٹن اناج نکالا، یعنی دس لاکھ ٹن، جس میں اب بھی ستاون ملین اناج باقی ہے، اور اگلی فصل کٹنے کے بعد کچھ اسی مقدار میں اور اناج آجائے گا، چنانچہ اکتیس ملین چاول اور ستائیس ملین گیہوں سے لوگوں کے پیٹ بھرے گئے، اگرچہ یہ لاک ڈاؤن پندرہ اپریل کو ختم ہوجائے؛ لیکن تین ماہ کا اناج دینا ہے، کیونکہ کرونا سے جنگ جاری رہے گی، چنانچہ اور ابھی چھبیس ملین اناج نکالا جائے گا، صحیح بات یہی ہے کہ اب صرف اسی پر گزارا ہے، دنیا میں اگر بعض افریقی ممالک کو چھوڑ دیا جائے تو وہاں یہ سوال نہیں ہے، کہ دو وقت کی روزی روٹی کا بندوبست کیسے ہوگا، مگر صرف یہی ملک ایسا ہے جس میں ایسی نازک کیفیت ہے؛ کہ کیسے اناج مل جائے، کھاتے میں دو ہزار روپے آجائیں.*
*اگر ایسا بھی نہ ہوپایا تو پھر زندگی اجیرن ہوجائے گی، لوگ بھوکے مر جائیں گے، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہی کسان اپنی عام ضرورت کیلئے پریشان رہتا ہے، دنیا نے ترقی کی مگر ان کیلئے وسائل اب بھی کم ہیں، لیکن سرکار اس بات پر کبھی توجہ نہیں دیتی، سب سے زیادہ کسان ہی خودکشی کرتے ہیں، وہی سب سے زیادہ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں، آج تک ان کی فصلوں پر دوگنی قیمت کا نفاذ نہیں ہوسکا، بلکہ سرکار سے ملنے والی samman nidhi کا فائدہ بھی انہیں نہیں پہونچ پارہا ہے، جس کے اعتبار سے ہر کسان کو سالانہ بارہ ہزار اور چار مہینے میں دوہزار دینے تھے؛ لیکن رپورٹس کہتی ہیں کہ سرکار نے اب تک نصف کسان کو بھی رقم نہیں پہنچائی ہے، وہ تو بتاتی ہے کہ کتنے لوگوں کو رقم دی ہے مگر کبھی یہ نہیں کہتی کہ کتنوں کو نہیں دی ہے، یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کو کسان چلاتا ہے، اس ملک کی خصوصیات میں سے ہے کہ یہ دنیا کو اناج سپلائی کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لال بہادر شاستری جی نے انہیں اہمیت دیتے ہوئے، جے جوان جے کسان کا نعرہ دیا تھا، یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت کی اکانومی مارکیٹ نہیں؛ بلکہ کسان ہی ہے، حکومت نے اگر توجہ نہ دی تو جس رسد سے آج لطف اندوز ہورہے ہیں اسی پر کل کو افسوس کریں گے، یاد رکھنے کی بات ہے: قلعہ کتنا ہی مضبوط ہو رسد کے بغیر کچھ نہیں.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
05/04/2020