لاک ڈاؤن اور اخلاقی گراوٹ

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(880) *لاک ڈاؤن اور اخلاقی گراوٹ*

*جب انسان کی لا علمی ہی علم کی بنیاد بن جائے، سیکھنا، سکھانا ایک عیب اور کھیل کود ہنر قرار پاجائے، مطالعہ کرنا، کتابوں میں سر کھپانا معیوب ہوجائے، تو پھر کس اخلاق کی بات جائے، انسانی دماغ سے ترجیحات کی توقع کیسے کی جائے، جس دماغ میں علم کے موتی نہ ہوں، تو وہ بنجر بن جاتا ہے، اس میں خود رو پودے اگ آتے ہیں، اور پورا نظام رائی کے دانہ سے بھی زیادہ چھوٹا ہو کر گم ہوجاتا ہے، نیز علم کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کا حصہ ہونا بھی لازمی ہے، جس علم میں ثقافت کی کمی ہو، وقت کی نزاکت کا خیال نہ ہو، اس علم میں ترقی ناممکن ہے، اور اگر ترقی بھی ہوجائے تو نافع نہیں کہا جا سکتا، وہ انسانی دنیا کیلئے ایک درد سر بن جاتا ہے، ان حقائق کی کلی تصویر لاک ڈاؤن میں نظر آتی ہے، ملک میں ایک بڑا طبقہ لاعلمی یا کم علمی میں وہ ہر کس و ناکس کی بات ماننے پر مجبور ہے، ان کے دور اندیشی، حکمت ودانائی نہ کے برابر ہے، وہ ہوا کے دوش پر سوار ہیں، ان کی کشتی بادبانی کشتی ہے، ان کی رائے میں کوئی استقامت نہیں، کوئی مضبوطی نہیں، وہ اندھے ہوگئے ہیں، روایات و رسوم کے آگے اور ظاہربینی کے سامنے ان کی عقلیت مات کھا چکی ہیں، چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہی سب سے بڑے دانا اور سمجھدار ہیں، انہیں کے بل بوتے سرکار چل رہی ہے، معاشرے میں انہیں کا زور ہے، مگر وہی دراصل حکومت کے آلہ کار اور ذریعہ تفریح ہیں، حکومت انہیں موم کی ناک بنائے رکھتی ہے، اپنے مفادات کے اعتبار سے انہیں الگ الگ تصویر دیکر خوشنمائی کے گمان میں مست رکھتی ہے.* *تو وہیں علم سے لیس مگر ثقافت و تہذیب اور انسانی ہمدردی سے دور لوگوں کا حال یہ ہے؛ کہ انہوں نے اس وبا کو بھی کھیل تماشہ بنا لیا ہے، مودی جی نے تالی اور تھالی کے بعد موم بتی جلوائی، موبائل کے ٹارچ جلوائے جس پر انہوں نےبنا کسی چوں و چراں کئے عمل کیا، بلکہ اسے جشن بنا دیا گیا، اسے دیوالی کا تیوہار قرار دیا گیا، مشعلیں جلا کر ریلیاں نکالی گئیں، اور بڑی بات تو یہ ہے کہ نیوز اینکر جنہیں حق دکھانا تھا، سرکار کی پالیسیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنی تھی عوام کے کارناموں کا جائزہ لینا تھا، انہوں نے انتاکشری کھیل کر مستیاں کیں، گانا گانے کی محفلیں لگائیں، ایکٹر اور ایکٹریس سے دو کوڑی کی باتیں کیں، جنہیں دیکھ کر صحیح معنوں میں ایک حیران کن ذہنی دیوالیہ پن اور اجڑی و ایران سوچ کا احساس ہورہا تھا، کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہوتا جارہا ہے، اٹلی نے لاشیں گننا بھی چھوڑ دی ہیں، یورپ موت کی نیند سونے کو تیار ہے، امریکہ کی چولیں ہل گئی ہیں، ایک دن میں ہزار سے زائد موتیں ہورہی ہیں، مگر بھارت کے لوگوں میں اب بھی ہنسی مزاق ہے، خود وزیراعظم نے جشن کا ماحول بنایا ہے، سوشل فاصلاتی مشن نام کا رہ گیا ہے، خود بی جے پی کے ممبران شادیوں میں جارہے ہیں، برتھڈے منارہے ہیں، بھکتی اور دیش بھکتی کے سہارے سڑکوں پر آکر قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ایسے میں لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں اگر کوئی سب سے زیادہ پابندی کر ررہا ہے تو غریب اور متوسط طبقہ ہے.* *سنتے ہیں کہ موت کی گھڑی میں دیرینہ دشمن بھی اخلاص و محبت کے بول بولنے لگتا ہے، مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقریباً تمام ذرائع ابلاغ اور نیوز اینکرز نے اس موت کو ہندو مسلمان کا تماشہ بنا دیا ہے، ایک ترازو لیکر بیٹھ گئے ہیں، جس میں ہندو اور مسلمان کی روحوں کو الگ الگ تولا جارہا ہے، بلکہ کہا تو یہ جارہا ہے کہ خود حکومت نے مسلمانوں کو نشانہ پر لیکر سارے منصوبے بنائے تھے، انہیں کی خاص جگہوں کو نشان زد کر کے سب سے پہلے انہیں کا ٹیسٹ کرنا اور انہیں کوئی قانونی مدد نہ دے کر ایک ہیولا کھڑا کرنا گویا حکومت کا ہی پلان تھا، یہ رویہ اس قدر اخلاقی گراوٹ کو دکھاتا ہے کہ ہر حساس آدمی پانی پانی ہوجائے، چنانچہ امریکہ جیسے بے شرم ملک نے بھی اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے؛ کہ بھارت میں کرونا وائرس کو ایک فرقہ واریت کا رنگ دے دیا گیا ہے اور اس سے اقلیات کو خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، تو وہیں بھارت کی پولس ایک بار پھر اپنے خطرناک چہرے کے ساتھ موجود ہے، ان میں انسانیت کا ایک ذرہ بھی نظر نہیں آتا، وہ ضرورت مندوں کو مار رہے ہیں، ڈنڈے لہرا رہے ہیں، حتی کہ اجازت لینے والے بھی محفوظ نہیں ہیں، دو وقت کیلئے راشن لینے جارہے افراد بھی ٹارگیٹ پر ہیں.* *تو وہیں ملک میں کرونا وائرس سے متاثرین کے ساتھ مجرموں جیسے سلوک کا بھی پردہ فاش ہوا ہے، ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور ان کی زیادتی کا بھی چرچا ہے، پوری دنیا کے ڈاکٹرز شاباشی بٹور رہے ہیں؛ لیکن ملک عزیر میں ان پر حملے کئے جارہے ہیں، اندور میں انہیں پیٹا جارہا ہے، چونکہ عوام بھی اپنے امیر کے نقشے قدم ہے، لہذا ان میں بھی اخلاقی اقدار کی کوئی قیمت نہیں ہے، مدد کرنے کے نام پر تصاویر کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، جو غریبی سے نہ مرے اسے شرمندگی سے مارنے کی کوشش ہورہی ہے، اسی طرح ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت نہیں ہے، اب بھی اختلافات کی میز لگی ہے، ہر دوسرے دن ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے، جس میں دو فریق گتھ جاتے ہیں، مولوی طبقہ میں طوفان بدتمیزی جاری ہے، ندویت، دیوبندیت کا تماشہ مسلسل چل رہا ہے، جماعت کی حمایت اور مخالفت پر مناقشے ہورہے ہیں، واقعی کبھی نگاہ بند کر کے اور دل پر ہاتھ رکھ سوچئے! تو اندازہ ہوگا کہ ہم انسانی موت کا مزاق بنا رہے ہیں، کہتے ہیں عظیم ترین فاسق بھی موت دیکھ کر رک جاتا ہے، مگر فی الوقت ایسا ہر گز نہیں ہے، قساوت قلبی کا عالم یہ ہے کہ موت کو دعوت دے رہے ہیں، اور اس کے سامنے ڈھٹائی دکھائی رہے ہیں، بس کیجئے، رک جائیے! موت سے کسی کی یاری نہیں ہے، کوئی بھی کبھی بھی مر سکتا ہے، اس دشوار ترین وقت میں سنجیدہ ہوجائے، ہوش کے ناخن لیجیے، ورنہ یہ اخلاقی زوال موت کی دہلیز پر ختم ہوگی.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 11/04/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔