???? *صدائے دل ندائے وقت*????(869)
*لاک ڈاؤن __ مسلمانوں کے ساتھ دقتیں!!*
*ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت دگر گوں ہے، وہ سیاسی و سماجی اور اقتصادی سطح پر پسماندہ قوم کہلاتی ہے، اب ان کے ووٹوں کی اہمیت نہیں، سماج میں ان سے دوستی کرنا آگ کا دریا پار کرنا ہے، بالخصوص پچھلے پانچ سالوں میں مسلمان سب سے زیادہ مشکوک قرار پایا ہے، اب وہ بھارت کیلئے ایک خطرہ اور ایکتا کیلئے رکاوٹ سمجھا گیا ہے، قانونی اور غیر قانونی ہر حربے کے تحت اس کو نشانہ بنا یا گیا ہے، اب تو خود عدالت عظمی کی سرپرستی میں سب کچھ ہوتا ہے، بہر کیف اب تو ملک میں کلی طور پر پر لاک ڈاؤن ہے، کرونا وائرس نے ہر گھر پر دستک دی ہے اور اسے خدشے میں مبتلا کردیا ہے، گویا پورا ملک اب ایک ایسے محاذ پر کھڑا ہے جہاں سے شانہ بشانہ ہو کر سبھی کو مقابلہ کرنا ہے، اب اقتدار کی بات نہیں کہ اکثریت شور شرابہ کے ساتھ مسلط ہوجائے، ہتھیار کی ضرورت نہیں کہ ہر وہ شخص کامیاب ہوجائے جو جوان ہو، ہتھیار بند ہو، اب تو باہمی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے، اگر ایک دوسرے کا خیال نہ کیا گیا تو لاک ڈاؤن میں ویسے ہی مر جائیں گے، مگر وہ سماج جس نے صرف تضاد دیکھا ہو، جس کے سامنے فسادات کی پوری فہرست ہو، جو ظلم کرنے کی عادی بن چکی ہو، جس کے سیاست دان ہر وقت اس بات کی سیاست کرتے ہوں؛ کہ کون کتنا دور ہوجاتا ہے، وہ سماج کیسے اکٹھا ہوگا، کیسے ان کا تانا بانا ایک ہوگا، وہ کس طرح ایک عالمی وبا کو ہرانے کیلئے جمع ہوں گے.*
*مودی حکومت نے اگرچہ اکیس دنوں کی بات کی تھی؛ لیکن نرملا سیتارمن نے تو تین مہینہ کا پیکیج دیا ہے، ہر بات پر انہوں نے تین ماہ کی بات کی ہے، بہت سے آزاد رپورٹرز تو کہہ رہے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن تین ماہ تک چلے گا، ویسے بھی ماحول دیکھ کر بھی کچھ ایسا ہی اندازہ ہوتا ہے، تو پھر کیسے گزر بسر ہو، کیسے زندگی آسان ہو، مسلمان ایک طویل عرصے سے تقسیم کی خطرناک مرض میں مبتلا ہے، حکومت نے اس کے حصے بخرے کردیئے، سی اے اے، این آر پی اور این آر سی کے سلسلہ میں اس میں حیران کن تشویش پائی جاتی ہے، اب وہ اپنی جان ڈٹینشن کیمپوں سے بچائیں، ملک کی حکومت سے بچائیں، لاک ڈاؤن سے بچائی؛ کہ عالمی وبا سے بچائیں، وہ پہلے ہی سے غرباء کی فہرست میں تھے، ان معاشی اسٹرکچر ہاتھوں سے کمانے پر منحصر ہے، سرکاری نوکریاں، اعلی عہدے اور بہترین وسائل سے وہ محروم ہیں، پھر انہیں دو وقت کی روٹی کون دے گا، بہت سے رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں؛ مگر وہ کب تک کھلائیں گے، اگر وہ ایک وقت کا بندوبست کر بھی دیں تو دوسرے اوقات کا کیا ہوگا، حکومت اگرچہ بہت سے انتظامات کرنے کا وعدہ کر رہی ہے، راشن بڑھا کر دیا جائے گا، پانچ کلو اور اضافہ ہوگا، ایک کلو دال ملے گی، مگر دس کلو چاول، یا آٹا اور ایک کلو دال میں تین ماہ کیسے گزاریں گے، رقم بھی دینے کو تیار ہے؛ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے کھاتے سرکار کیلئے بند ہیں، جس میں صرف امیدیں جمع ہوتی ہیں، یا ملک میں بالخصوص مسلمانوں میں اکثر وہ لوگ ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، انہیں پھر کیسے اسکیموں سے فائدہ ہوگا.*
*مسلمانوں کی سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ وہ حکومتی سطح پر چھوا چھوت کا شکار ہے، اگر مان بھی لیں کہ حکومت عوام کیلئے ایکشن لے گی، مگر اب یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس ملک میں عوام کی definition کیا ہے، گھر سے باہر نکلنے والوں پر پولس ڈنڈے برسا رہی ہے، مگر اس ڈنڈے پر مزید زور آجاتا ہے جب کسی مسلمان پر گرنا ہو، وے اگر کہیں پناہ گزیں ہو اور حالت نے انہیں روک لیا ہو تو وہ مشکوک ٹھہرتے ہیں، باغی مانے جاتے ہیں، اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ مسلمانوں کے مساجد ومدارس کو سب سے پہلے مرحلے میں بند کیا گیا، مگر آر ایس ایس کی شاخیں، ان کے ہوسٹلوں پر اب بھی کوئی خاص ایکش نہیں ہے، مسلمانوں کے مذہبی اجتماعات پر پابندی ہے؛ لیکن ہندوؤں کی ساری باتیں درست ہیں، وہ رام نومی کی تیاری کر رہے ہیں، جس کی قیادت خود یوپی کے وزیر اعلی یوگی کرتے ہیں، رام مندر کی شروعات ہونے کی گئی، جس کی پوجا بھی انہوں نے ہی کی، دشہرا بھی آنے والا ہے، اس کی تیاری زوروں پر ہے، ہون کنڈ سجائے گئے اور سب نے ملکر کرونا کیلئے پوجا کی، مگر کوئی اعتراض نہیں __ گائے کا گوبر اور پیشاب پینے کی پارٹی بھی کی گئی اور اب بھی کہیں نہ کہیں چل رہی ہے، بائیس تاریخ کو سرکاری عہدیداران اور بی جے پی کے اندھ بھکتوں نے تھالی اور تالی پیٹنے کے نام پر جشن منایا، معاشرتی دوری کی دھجیاں اڑادیں، مگر کسی پر کوئی کارروائی نہ ہوئی.*
*ایم پی کی سیاست زوروں پر رہی، سرکار گرائی بھی گئی اور بنائی بھی گئی، مگر کچھ نہ ہوا، پارلیمنٹ، ودھان سبھائیں بھی چلتی رہیں مگر کوئی بات نہیں، مسلمانوں نے اگر غلطی سے بھی باہر قدم رکھا تو ظالم بن جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اندھ بھکتوں کی تعداد مسلمانوں کے اندر بھی موجود ہے، جو وقت اور حقیقت کی نزاکت کو نہیں سمجھتے؛ لیکن آخر کیسا قانون ہے، کیسی وبا ہے جو صرف مسلمانوں کی وجہ سے ہے، بہت سی جگہوں سے خبر ہے کہ اس کی آڑ میں این پی آر بھی جاری ہے، یعنی یہی کہ کسی بھی طرح مرتے مرتے بھی مسلمانوں کی بربادی کا سامان کر کے جانا ہے، مسلمان دوہری دقتوں میں مبتلا ہے، وہ ایمان کی حفاظت کرے یا پھر انسانیت کی، ملک کیلئے کھڑا ہو یا پھر مسلم برادری کیلئے، ہر جانب سے مسلمانوں کو دبوچنے کی کوشش ہے، ایسے میں دست بستہ گزارش ہے کہ مسلمان خود آگے بڑھیں، اپنوں کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی مدد کریں، یہ ثابت کریں کہ ملک کا مسلمان حکمرانوں سے نہیں خدا کے احکام کی اتباع اور خدمت خلق پر زندہ ہے، اس کے سامنے انسانی جان کی قیمت ہے، ہر ایک کی فکر ہے، وہ امیروں کی بستی میں غریبوں کی غربت نہیں دیکھ سکتا، وہ انسانیت کا علمبردار اور رحمت الہی کا پیامبر ہے، خدارا __ وقت کو غنیمت جانئے ہر ممکن مدد کیجیے، قابل رشک خدمت کیجئے اور تمام پروپیگنڈوں پر زوردار طمانچہ لگائیے!!*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
31/03/2020