لاک ڈاؤن پہلے سرکار سی اے اے ہٹائے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(881) *لاک ڈاؤن _ "پہلے سرکار سی اے اے ہٹائے".*

*اگر کوئی جھوٹ کا پلندہ بن جائے تو اس سے کسی خیر کی توقع کرنا نادانی کی بات ہے، انسانی طبیعت میں سب سے خطرناک امر یہی ہے؛ کہ وہ جھوٹ کو یوں بھنانے لگے جس سے سچ بھی شرماجائے، موجودہ سرکار کا رویہ ہر محاز پر یہی رہا ہے، اس نے ہمیشہ جھوٹ اور چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے عوام کو یوں بے وقوف بنایا ہے؛ کہ وہ اندھ بھکت بن چکے ہیں، ان کی زبان سے نکلی ہر بات سند پالیتی ہے، وہ آہ بھی کردیں تو بھکتوں کا ٹولا ٹوت پڑتا ہے، ان میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور اپنے سب سے بڑے انسانی معبود کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ اب قانون و آئین بھی ان کی راہ کی دھول ہے، وہ دستور کو بھی اسی وقت سمجھتے ہیں جب اس کی تشریح ان کے منہ سے سنی جائے، اگر سپریم کورٹ بھی کوئی ایسا فیصلہ کرتا ہے جس سے ان کی زبان شیریں پر کڑواہٹ ٹپکتی ہو وہ آگ ببولا ہوجاتے ہیں، یہ جگ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں نیا قانون شہریت کا ایک ایسا قانون ہے جو سیاہ ترین ہے، جس سے جمہوریت پر داغ پڑتا ہے، جس سے ہندوستان کی خوبصورتی پر دھبہ لگتا ہے، جو یہاں کی ایکتا، اکھنڈتا اور محبت و ہمدردی کو چنکا چور کرتا ہے، یہ مذہب کی بنیاد پر شہریت تقسیم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دیش میں؛ بلکہ دنیا بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاجات ہوئے، جو یقیناً نہیں رکے گا؛ بلکہ یہ بہرصورت داستان غم کا سرا پکڑ کر ہی دم لے گا.* *اسی لئے کرونا وائرس کی مہاماری میں بھی لوگوں کے دہک رہے ہیں، اور بلامبالغہ اب بھی ہر طرف لوگ سر بکف ہیں کہ جام محبت کا پی لیں گے اور غم زمانہ کھا لیں گے؛ لیکن ملک کی سلامتی کو یوں تہس نہس نہ ہونے دیں گے، چنانچہ شہادتیں بھی دیں، زخم پر زخم برداشت کئے، ویرانی جھیلی اور دہلی فساد کا تانڈو بھی دیکھا، مگر کمر اب بھی کسی ہوئی ہے، دل اب بھی اسی قصہ پر جما ہوا ہے، ان دنوں کرونا وائرس کا قہر ہے مگر یہ قہرِ بھی برداشت کرلیں گے، لیکن ڈٹینشن سینئر کا عذاب نہ جھیلیں گے، چنانچہ اب بھی دل میں این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کی آگ لگی ہوئی ہے، حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ این پی آر کے ڈاٹا کا استعمال این آر سی میں نہیں کرے گی، این آر سی ابھی نہیں ہوگا، کچھ بھی کہے لیکن ایک جھوٹی سرکار جس نے اپنی عمارت ہی جھوٹ کے گارے اور مٹی سے بنائی ہو اس کا اعتبار ہر گز نہ کیا جائے گا، ہم یہ نظارہ دیکھ چکے ہیں کہ وہ ایک طرف وہ پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں کو تھپکی کی نیند سلانے کی کوشش کرتے ہیں، تو دوسری طرف این پی آر کیلئے دوسرے حربے استعمال کرتے ہیں، لوگ مر رہے ہیں مگر انہیں اس کی فکر نہیں؛ بلکہ وہ کسی حال میں اپنی ضد پوری کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی کیفیت میں بھی یہ خبریں ہیں گردش کر رہی تھیں کہ این پی آر کیلئے پوچھ تاچھ جاری ہے، غور کیجئے آخر ان سب کو کس بات پر محمول کیا جائے ___؟* *آج ہی دی وائر انگلش اور رپورٹ لک نے یہ خبر شائع کی کہ ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کے ساؤتھ ایشیاء ریجن کی ڈائریکٹر ، میناکشی گنگولی نے 82 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سی اے اے کے متعلق پیش کی ہے، جس میں سی اے اے کو مذہبی بنیادوں پر قائم ایک فاسد قانون قرار دیا ہے، اور اسے لاک ڈاؤن میں ہی رد کرنے کی سفارش کی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ مودی جی نے کرونا وائرس سے لڑنے کیلئے سبھی کو متحد ہونے کی تلقین کی؛ لیکن کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف لنچنگ، فساد اور اقلیت کے خلاف ہورہے مظالم کے خلاف متحد ہونے کی بات نہیں کہی، دراصل یہی سرکار کا دھوکہ ہے، ذہنی دیوالیہ پن اور منصوبہ بندی ہے، بلاشبہ کرونا وائرس کی آڑ میں سب سے پہلے شاہین باغ کو ہٹانے کی ضد کی گئی؛ کیونکہ وہ سی اے اے مخالفت کی علامت تھا، مگر اپنے اجتماعات اور اسمبلیوں پر کوئی روک نہیں لگائی، بائیس فروری کو شاہین باغ پر شر پسندوں نے حملہ کردیا تھا؛ لیکن کوئی ہلچل نہ ہوئی، اور پھر دہلی فسادات کی چیخیں بھی نہ سنی گئیں، تو وہیں جماعت تبلیغ کو نشانہ بنا کر کرونا وائرس کے خلاف ایک وائرس کھڑا کردیا گیا، جس سے صرف مسلمانوں کی ہی جان جائے، بہر حال یہ وقت انسانی بنیادوں پر کھڑے ہونے کا ہے، مسلم قوم میں انسانیت زندہ ہے، مگر جب بھی افق صاف ہو؛ حکومت کے سامنے پھر سے چیلینج بن جانا ہے، اگر خدا نے حفظ و امان میں رکھا تو ہم نے بھی ٹھان لیا ہے؛ کہ اس قانون کو واپس کر کے رہیں گے، اگر انہوں نے نہ سنی تو زمانہ سنے گا اور دیکھے گا.* *چنانچہ دنیا کے اکثر ممالک نے اسے سیاہ قانون قرار دے دیا ہے، یوروپ، امریکہ کی بعض پارٹیاں، اور اقوام متحدہ وغیرہ سبھی نے اسے نامناسب بتایا ہے، بات نکل چکی ہے جو بہت دور تک جائے گی؛ بلکہ جا چکی ہے، حکومت کی اکڑ بھی ٹھکانے لگنے کو ہے، اسی زبان پر نرمی ہے، میڈیا سے گفتگو ہے، اور بات بات پر اپنی معصومیت کا رونا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے، اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ جب سرکار کو سپریم کورٹ نے سی اے اے کے خلاف نوٹس دیے کر جواب طلب کیا تھا، تو اس کے متعلق انہوں نے صاف طور پر یہی قرار داد پیش کی کہ یہ عین جائز قانون ہے، اس سے کسی کی شہریت نہ جائے گی؛ بلکہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس قانون کی ضرورت ہر ایک ملک کو ہے، شاید یہ بھول رہے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجر ہندوستان کے پائے جاتے ہیں، جو باہر ملکوں میں جاکر آباد ہوجاتے ہیں، شہریت لے لیتے ہیں، یا پھر مزدوری بھتے پر کام کرتے ہیں، اگر دوسرے ممالک نے بھی اس قانون کو رائج کردیا تو ہندوستان میں حیران کن بحران آجائے گا، آخر یہ جھوٹی سرکار نہ جانے کیوں عوام کو سہولیات دینے کے بجائے انہیں در در ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرنا چاہتی ہے، وہ اس بات پر اٹل ہے کہ کسی طرح ملک میں انارکی پیدا ہوجائے، یہاں کی شانتی اور امن خراب حالی میں بدل جائے، حالانکہ اب یہ ممکن نہیں ہے، ملک میں معیشت کی بدحالی اور نوکریوں کی مہاماری نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں، تو وہیں کرونا وائرس نے سارے عیوب ظاہر کردیئے ہیں، اور جو اب تک نہیں جاگ پائے وہ جلد ہی جاگ جائیں گے، اور جس طرح ایک وائرس سے لڑنے کیلئے متحد ہوگئے ہیں، امید ہے کہ انسانیت کے وائرس (سی اے اے) کے خلاف بھی ایک سر ہوجائیں گے.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 12/04/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔