???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1115)
*لو جہاد کا اثر شروع ہوچکا ہے-*
*یہ بات تو بڑے زور و شور سے کہی جارہی ہے کہ مسلم نوجوانوں نے غیر مسلم بچیوں کو بہلانے پھسلانے اور انہیں مذہب سے ہٹا کر اسلام کی آغوش فراہم کرنے کی کوشش کی؛ بلکہ اسے جہادی سطح پر جاری کر رکھا ہے، حالانکہ یہ ایک ایسی بے بنیاد بات ہے جس کا ثبوت اب تک پیش نہیں کیا جاسکتا، الہ باد ہائی کورٹ سے لیکر متعدد نچلی عدالتوں اور سپریم کورٹ تک کے فیصلے اس پر شاہد ہیں؛ کہ اسے ایک ایجنڈے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ملک کے مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ کی طرف دھیکلا جارہا ہے، مزید یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہونچ چکی ہے کہ ان ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمان کو ایڑیوں کے بل پلٹنے اور گھر واپسی کی مہم تیز کرنے کی سعی ہے، گویا شدھی تحریک کو زندہ کیا جارہا ہے، بلکہ اس دفعہ قانونی حربے کے ساتھ میدان فتح کرنے کوشش ہے، چنانچہ آج ہی این ڈی ٹی وی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ ایک اکیس سالہ نوجوان مسلمان نے ہندو لڑکی سے ہندوانہ رسم و رواج کے ساتھ شادی کی خاطر اپنا مذہب بدل لیا، ہندو گھرانے کو یہ بات تب بھی نہ جچی اور اوباش و بدمعاشوں کے ذریعہ اس جوڑے کو پریشان کیا جانے لگا، خود لڑکی کے گھر والے ان کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؛ ایسے میں پنجاب اور ہریانہ کی عدالت نے دخل اندازی کی ہے اور پولس محکمہ کو حکم دیا ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کرے، کتنی حیرت کی بات ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہندو لڑکی سے شادی کرے اور وہ لڑکی خواہ اپنی مرضی و خوشی سے مسلمان بن جائے تو اسے لو جہاد کا نام دیا جاتا ہے، اس ایک واقعہ کو لیکر پوری کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، اس کے خلاف صوبائی طور پر قوانین پاس کئے جاتے ہیں اور ملک کی اکثریت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے؛ کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک نئے قسم کے جہاد کی ابتدا کر رکھی ہے، جس کے ذریعہ وہ ملک کو ہڑپ کر لینا چاہتے ہیں، ہندو اکثریت کو دبوچ لینا چاہتے ہیں، وہ گویا یہ ثابت کرنا چاہتے کہ ملک کی پندرہ سے بیس فیصد آبادی وہاں کی اکثریت کو نگل لینے میں کارگر ہے اور ان کے وجود کو اگر خطرہ ہے تو صرف اور صرف مسلمانوں سے ہی ہے، یہی ڈر ہے جس نے سماج کو کئی دھڑوں میں بانٹ دیا ہے اور اب بھارت ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہوچکا ہے، جہاں سے اس کے اقدار و معانی اور تاریخ و حقائق داؤ پر لگ گئے ہیں.*
*غور کرنے کی بات ہے کہ ہندو سماج نہ بکھر جائے اس کی پرواہ سبھی کو ہے، حتی کہ قانونی طور پر اسے تحفظ فراہم کیا جارہا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر مذہب اور روایات کو اپنی بنیاد اور اصل کی حفاظت کا پورا حق ہے؛ لیکن جمہوریت میں یہ کسی اور مذہب کی قربانی اور ان کے افراد کی ہلاکت سے منسلک ہو تو جائز نہیں ہے، ایسے میں مسلمانوں کا گھر منتشر ہو، ان کی بچیاں اور بچے اسلامی تعلیمات کو روندیں؛ بلکہ انہیں روندنے پر مجبور کیا جائے، حسن پرستی کے جال میں پھانس کر ایک سازش کے تحت اسلامی معاشرے کو نشانہ بنایا جائے، ارتداد کی لہر عام کی جائے، بالخصوص مسلم بچیوں کی وقتی خواہش اور جوش و جذبات کا سہارا لیکر ان کا شکار کیا جائے تو بھلا یہ کیسے جائز ہوجائے گا؟ کوئی صوبہ اور سیاست دان بلکہ خود اسلامی شخصیات اس سلسلہ میں گفتگو تک نہیں کرتیں؛ کہ اگر ہندو بچے اور بچیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور انہیں لو جہاد کے آئینہ سے دیکھا جائے تو پھر مسلم بچے اور بچیوں کے ساتھ زیادتیاں کرنے پر اسے کیوں کر قانون کا خول نصیب نہ ہو اور کیوں کر ایسوں کی کاوشوں کو متشددانہ عمل قرار نہ دیا جائے، ایک اندازے کے مطابق بھوپال میں ہی پرسنل لا بورڈ خواتین پینل کے ایک سروے کے مطابق سو سے زائد مسلم لڑکیاں و خواتین غیر مسلموں کی طرف باہیں پھیلا رہی ہیں، علاوہ ازیں ایک سال کے اندر دہلی میں پانچ سو اور پونہ میں چوالیس نے غیر مسلموں سے شادی کرلی، مولانا عمرین محفوظ رحمانی مدظلہ نے ایسے کئی حیران کن انکشافات کئے ہیں، آپ میدان عمل میں متحرک اور فعال اشخاص سے ملاقات کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ یہ معاملہ سر سے اوپر جاچکا ہے، کئی واقعات میں ایسی سنگینی پائی گئی ہے کہ سن کر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، غیر مسلم لڑکوں کو نہ صرف فنڈنگ کی جاتی ہے؛ بلکہ مسلم بچیوں کو دام فریب میں لیکر اجتماعی آبرو ریزی کا بھی شکار بنالینے کا موقع دیا جاتا ہے، افسوس صد افسوس کہ مخلوط نظام تعلیم، والدین کی لاپرواہی اور سب سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات سے دوری نے مسلمان معاشرے کو ننگ و عار کر رکھا ہے؛ لیکن اب تک کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آتا، ایک طرف ہندو طبقہ اپنے بچے اور بچیوں کی خاطر آئینی دراندازی تک کر رہے ہیں تو وہیں مسلمان طبقہ آئین کی فراوانی بھی استعمال نہیں کرتا!!!*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
02/12/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔