ماحول کے ڈر سے آنے والی تبدیلی عارضی ہوتی ہے

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*مولانا عبد السلام قدوائی ندوی رح* کا شمار *دار العلوم ندوة العلماء لکھنئو* کے انتہائی قابل اور لائق افراد میں ہوتا ہے ۔ ندوہ کو اپنے جن سپوتوں پر ناز ہے ۔ ان میں ایک نام مولانا قدوائی صاحب کا بھی ہے ۔ وہ اردو کے صاحب طرز انشاء پرداز تاریخ ہند اور تاریخ اسلام کے ماہر تھے علوم دینیہ اور تاریخ و اقتصادیات پر اچھی نظر تھی ۔ انہوں نے ندوہ میں اور پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیادہ تر ان ہی مضامین کو پڑھایا ۔ تاریخ ہند اور تاریخ اسلام ان کا ذاتی ذوق تھا ۔ مولانا استاد و معلم کے ساتھ بہترین نگراں اور مربی بھی تھے ۔ بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں ان کا اپنا مخصوص رجحان، نظریہ اور سوچ تھی ۔ بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح مولانا کی طبیعت چونکہ بڑی بے ہمہ باہمہ واقع ہوئی تھی ،ان میں بڑی بے تکلفی و سادگی تھی ،طلبہ پر شفقت ان کے ذاتی معاملات سے بھی دلچسپی و ہمدردی اور ان کے ساتھ مساوات کا معاملہ ان کی طبیعت ثانیہ بن گئ تھی ،وہ ضوابط و احکام اور سرزنش و تعزیر سے زیادہ افہام و تفہیم اور نصیحت و تلقین کی افادیت پر یقین رکھتے تھے اور پیچیدہ سے پیچیدہ معاملہ میں محبت و ہمدردی اور اخلاق کے اثر کے قائل تھے ۔ اس لئے طلبہ ان سے سب سے زیادہ مانوس اور قریب ہوگئے ۔ (پرانے چراغ ۲/ ۲۸۸) مولانا ندوہ میں صرف درجہ کے استاد نہیں تھے بلکہ وہ طلبہ کے نگراں و اتالیق اور علمی ترقی کے مشیر و رہنما تھے اور طلبہ کی انجمن الاصلاح کے وہ دوران طالب علمی ناظم بھی رہ چکے تھے ۔ اس لئے *انجمن الاصلاح* کی افادیت کے بہت قائل اور معترف تھے اور طلبہ کو اس سے مربوط رہنے اور کما حقہ فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے اور اس کی تاکید کرتے تھے ۔ مولانا عبد السلام قدوائی ندوی رح کے اندر وسعت مطالعہ اور علوم کے توسع نے ایک خاص اعتدال اور ٹھراو پیدا کردیا تھا وہ واقعی قدیم و جدید کے نمائندے تھے بلکہ ان کے تعلیمی پس منظر کا حاصل بھی تھا ۔ نگرانی اور اتالیقی کے سلسلہ میں مولانا کا ایک خاص اسلوب اور انداز تھا ۱۹۴۰ء کی دہائی میں مولانا قدوائی ندوہ میں تاریخ و دینیات اور اقتصادیات کے استاد تھے اور ساتھ ہی رواق شبلی کے نگراں بھی تھے اس زمانہ کے جو طلبہ آپ کی نگرانی میں رہ کر دنیائے عالم میں اپنا نام کمایا ان میں مولانا عبد اللہ عباس ندوی رح بھی تھے ۔ مولانا عبد اللہ عباس ندوی رح آپ کی نگرانی اور انداز تربیت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں ۔ مولانا جب تک دار الاقاموں کے نگراں رہے ان کا اصول تربیت یہ تھا کہ طلبہ کو بات بات پر ٹوکنے اور قدم قدم پر دار و گیر کرنے کے بجائے ان کے ضمیر کو بیدار کریں ۔ ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں اور ۰۰ اپنا کام آپ کرو ۰۰ کے راستے پر لگائیں چنانچہ مولانا نے اپنے دور نگرانی میں طلبہ کی ایک کمیٹی بنا دی تھی جو اپنا نقیب منتخب کرتی تھی ۔ نقیب ہر ماہ بدلا جایا کرتا تھا تاکہ ایک طالب علم انتظامی ذمہ داریوں میں الجھ کر تعلیم سے غافل نہ ہوجائے ،یہ نقیب نگراں اعلی کے ماتحت خود مختار ہوتے ۔ طلبہ کو احاطہ دار العلوم سے باہر جانے کا پروانہ دیتے ۔ بیمار طلبہ کی تیمار داری کرتے اور علاج کا بندوبست کرتے ۔ اور نمازوں کے لئے خاص طور پر فجر کی نماز کے لئے اپنے ساتھیوں کو اٹھایا کرتے ۔ طلبہ مولانا سے بہت قریب تھے اور ان کا دل سے احترام کرتے اور ان کو صرف ۰۰ مولانا ۰۰کے لفظ سے یاد کرتے،مولانا سے ہر طرح کے مشورے لیتے ،اپنی تعلیم و مطالعہ سے متعلق ہدایات لیتے اور بسا اوقات اپنے نجی معاملات میں بھی مشورہ اور رہنمائی حاصل کرتے ،مولانا ایک سخت گیر اور خوردہ گیر نگراں نہیں بلکہ ان کو باپ یا بڑے بھائی کے مرتبہ کا انسان سمجھتے ۔ مولانا کا معاملہ یہ تھا کہ خود تو انتہائی متشرع تھے،کبھی مشتبہ یا مباح امر کی طرف بھی مائل نہیں ہوئے مگر طلبہ کے حق میں چشم پوشی سے کام لیتے ۔ ان کے بعض رفقاء کو ان کے اس طرز عمل پر اعتراض تھا کہ اپنی ذات سے تو زہد و تقوی کے ہر معیار پر کامل ہیں مگر طلبہ کی تساہلی برداشت کرتے ہیں ان کے خلاف کوئی سرزنش کی تجویز پیش نہیں کرتے ۔ بلکہ نرم خوئ سے مسلمانوں کے رواجی وضع اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ۔ ان کا خیال تھا جو صحیح ثابت ہوا کہ جو طلبہ آج آزاد نظر آتے ہیں جب ان کا ضمیر جاگے گا اور ضرور جاگے گا تو پھر ان کے اندر تبدیلی آجائے گی ،ماحول کے ڈر سے جو تبدیلی اختیار کریں گے وہ عارضی ہوگی ۔ ( سہہ ماہی کاروان ادب اپریل ۔ جون ۱۹۹۶ء مضمون یاد یار مہرباں از عبد اللہ عباس ندوی رح) مولانا عبد السلام قدوائی ندوی رح کے اس انداز نگرانی اور اتالیقی کو اختیار کرنے کی مدارس و مکاتب میں بہت ضرورت ہے طلبہ پر سوار ہو کر اور سختی کرکے کام کروانا یہ وقتی طور پر تو ٹھیک ہے لیکن اس کا فائدہ تادیر اور پائدار نہیں ہوتا ۔ آج مدارس میں، (خاص طور پر اقامتی مدارس اور ادارے میں) طلبہ کی نگرانی کے سلسلہ میں افراط و تفریط پائ جاتی ہے ،یا تو طلبہ پر اس قدر سختی کی جاتی ہے کہ وہ احساس کمتری کے شکار ہوجاتے ہیں جرآت و ہمت شجاعت و بہادری اور حق گوئ کے اوصاف سے وہ زیادہ تر محروم ہوجاتے ہیں ۔ دوران طالب علمی نگراں اور اساتذہ و ذمہ داران اس قدر دبا کر رکھتے ہیں کہ ان کے اندر سے خودی اور خودداری کے اوصاف مردہ ہوجاتے ہیں ۔ طالب علم کی حق بات اور درست موقف کو بھی سختی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ جب کہ حکمت و دانائی کی بات ہے کہ ان کے مسائل اور پروبلم کو بھی سنا جائے اور جائز حد تک ان کی ضرورتوں پر توجہ دی جائے اور مسائل حل کئے جائیں ۔ دوسری طرف بعض ادارے میں اظہار رائے اور فطری آزادی کے نام پر اتنی چھوٹ اور رعایت دی جاتی ہے ،اور اس قدر چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے کہ طلبہ وضع و قطع میں تو آزاد ہو ہی جاتے ہیں فرائض اور جماعت کی نمازوں میں حاضری بھی بہت کم رہتی ہے یہ صورت حال تو پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ طلبہ آزاد خیال و آزاد منش ہوجاتے ہیں، بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے اصول تربیت افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی راہ میں ہو تو وہ اصول تربیت اور وہ نگرانی و اتالیقی کامیاب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت طیبہ میں اصول تربیت کے سلسلہ میں بھر پور رہنمائی ملتی ہے، اور کس حد تک سختی کی جائے اور اس کا طریقہ اور انداز کیا ہو ؟ نیز کس قدر رعایت اور چشم پوشی کی گنجائش ہے، اس کی مثالیں اور نمونے بھی کثرت سے موجود ہیں ۔ اس کے لئے پھر کسی موقع پر خامہ فرسائی ہوگی آج بس اتنا ہی ، طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے پیغام ارسال کرنے میں تاخیر ہوئی اس کے لئے قارئین باتمکین سے معذرت خواہ ہیں ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔