مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الااللہ

*محمد قمر الزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

                            *توحید*

  تمام مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کی ضد شرک ہے ۔جس کی اسلام میں ادنی درجہ کی بھی گنجائش نہیں ہے ،قرآن مجید کی زبان میں شرک ظلم عظیم ہے : *ان الشرک لظلم عظیم* بیشک شرک بھیانک اور عظیم ہے۔ اس کی موجودگی میں سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں :

*لئن اشرکت لیحبطن عملک* اگر تم نے خدا کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو ضرور تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے گا ۔ مشرکین مکہ بہت کچھ مذھبی رسوم و عبادت انجام دیتے تھے خانہ کعبہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی،چھپ چھپ کر زبان رسالت سے قرآن کریم کی سماعت اور خیرات و عطیات۔ لیکن شرک کی وجہ سے یہ سارے نیک اور اچھے اعمال ان کے کچھ کام نہ آئے ۔

               ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ ہی مسجود ہے،وہی معبود ہے وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے ۔ اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان سے کوئ ایسا جملہ ادا کرے یا کوئ ایسا عمل کرے جس میں ادنی اور معمولی شرک کا شائبہ ہو،اس کی نماز اس کی قربانی، اس کا جینا اور اس کا مرنا سب اسی ذات وحدہ لا شریک کے لیے مخصوص ہے، جو تنہا عبادت کے لائق ہے اور ساری تعریفیں اسی کو زبیا ہیں ۔

                     یہ دین، اسلام و کفر کے معاملہ حد درجہ غیرت مند اور حساس ہے ۔ اس لیے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ شرکیہ اعمال اور رسوم و رواج کی کبھی اور کسی موقع پر اجازت دے ۔اوہ غیر اسلامی اعمال و افعال میں شرکت کی اجازت دے اور اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھے۔ کیونکہ ایسا کرنا ایک طرح کا کفر کا تعاون کرنا ہے۔ جس سے قرآن و حدیث نے منع کیا ہے ۔

مسلمانوں کے لئے بحیثیت مسلمان یہ بات واجب ہے کہ وہ شرک سے براءت کا اظہار کرے اور کسی طرح کے مشرکانہ اور کفریہ اعمال میں تعاون نہ کرے ۔

                          شریعت نے غیر مسلموں کے تیہواروں میں بھی شرکت سے منع کیا ہے ۔ اسلام اس باب میں جیسا کہ بتایا گیا کہ بہت غیرت مند واقع ہوا ہے ۔ اسی لئے ان آستانوں (نصب) پر قربانی کو درست نہیں قرار دیا،جہان پر بت پرست قربانی کیا کرتے تھے ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل ایران کی طرح نیروز و مہرجان کی عید منانے کی اجازت چاہی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا اور صاف منع کردیا۔ طلوع آفتاب ،غروب آفتاب اور استواء یعنی زوال کے وقت نماز پڑھنے سے اس لئے منع کیا گیا کہ اس وقت آفتاب پرست اور بت پرست قومیں عبادت کرتی تھیں ۔یوم عاشورا کا روزہ یہود بھی رکھتے تھے،اس لئے امتیاز کے لیے اس کے ساتھ ایک روزہ ملانے کا حکم فرمایا گیا ۔

         مسلمانوں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہم تعاون کریں اور گناہ و سرکشی کے معاملے میں کسی کی مدد نہ کریں ۔

                   اسی لئے فقہاء کرام نے حرام کاموں کے ذرائع کو بھی حرام کہا ہے ۔ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعمیر اور پوجا پاٹ میں چندہ دینا یہ بھی صریحا کفر و شرک میں تعاون ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے ۔بلکہ اگر کوئ شخص بطیب خاطر دل کی آمادگی سے اس میں مدد کرے تو کفر کا اندیشہ ہے ، اور کراہت خاطر کے ساتھ مجبوری کے بغیر کرے تو بھی گناہ سے خالی نہیں ۔ ہاں اگر ایسے حالات ہوں کہ تعاون نہ کرنے اور ان اعمال و افعال میں ساتھ نہ دینے کی صورت میں فرقہ وارانہ فساد کا خطرہ اور اندیشہ ہو اور جان و مال عزت و آبرو اور ملازمت خطرے میں ہو تو کراہت خاطر کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں ۔ لیکن ایسے موقع پر برادران وطن غیر مسلم بھائیوں کو حقیقی صورت حال سے واقف کرانا چاہیے کہ اس کا تعلق مذھبی رواداری یا تشدد سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے عقیدہ اور مذھبی امور میں بے مداخلت یا مذھبی طور پر بقاء باہم کے اصول سے ہے اور ہمارے عقیدہ کے لحاظ سے اس طرح کے اعمال میں شرکت اور مالی یا بدنی تعاون ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئ شخص خود اس میں باقاعدہ شریک ہو جائے ۔

                                     موجودہ حالات میں ہم مسلمانوں کو یہ ماننا پڑے گا اور یہ احساس کرنا ہوگا کہ اس طرح کے جو حالات آرہے ہیں کہ ہمیں غیر شرعی رسم و رواج کا پابند ہونا پڑ رہا ہے اور اس کا مکلف بنایا جارہا ہے اس میں ہماری دعوتی غفلت کا زیادہ دخل ہے ۔ ہم نے دعوت کا کام نہیں کیا ۔ نبوی مشن جس کے ہم وارث تھے ہم نے اس کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا اور جب ہم داعی نہیں رہے تو مجبور غیر داعی بن گئے اور ہم مدعو بن گئے انہوں نے اپنی چیزین ہم پر مسلط کرنا شروع کر دیا ۔

         اس سے بچنے کی صورت بس یہ ہے کہ ہم خود داعی بن جائیں ۔

اگر آپ کسی مندر کے پاس سے گزر رہے ہیں اور وہاں پرشاد بٹ رہا ہو تو آپ بھی لینے پر مجبور ہوں گے یا آپ کو انکار کرنا پڑے گا کہ میرے مذہب میں اس طرح کے پرشاد کھانے کی اجازت نہیں ہے جس کو بتوں پر چڑھایا گیا ہو ۔

        لیکن اگر آپ پہلے سے ٹافی خرید لیں کہ ہم کو وہاں سے گزرنا ہے، اور گزرتے ہی آپ لوگوں کو ٹافی ہدیہ کرنا اور باٹنا شروع کردیں، تو پرشاد لینے سے آپ بچ جائیں گے ۔

                             ہماری کمزوری یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس متحدہ پلانگ اور منصوبہ نہیں ہوتا عین موقعہ پر جب مسئہ سامنے آتا ہے تو ہم سب پریشان ہوجاتے ہیں ۔ ہم دوسروں کو باور کراتے ہیں کہ ہم خالی ہیں بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ اپنا کام ہمیں تھما دیتے ہیں اگر ہم خود ذکر و اذکار اور عبادت میں مشغول رہیں، ہم پہلے سے ایسے موقع کے لئے انفرادی یا اجتماعی شیڈول بنا لیں ۔ تو دوسرے کو یہ موقع ہی نہیں مل سکے گا کہ وہ ہم کو پابند بنا سکیں ۔

                      ایک اور نقص اور کمی یہ ہے۔ کہ آج تحریریں اور بیانات بھی نسبت کی بنیاد پر پڑھی اور سنی جاتی ہیں ۔ یہ کس کی تحریر ہے؟ کس کے خلف الرشید ہیں؟ ۔کن کہ نبیرہ اور نواسے ہیں اور پوتے ہیں؟ کن کے وارث اور امین ہیں؟ ۔ کس اعلی خاندان سے نسبت رکھتے ہیں؟ ۔ جب کہ مومن کو پابند بنایا گیا ہے کہ اس کو حکمت و معرفت اور دانائی کی چیزیں جہاں اور جن سے ملے وہ ان کو لے اور ان پر عمل کرے ۔ اس نقد کے لیے معذرت خواہ ہیں ۔

   *غالب اس تلخ نوائ سے رکھیو مجھے معاف*

  *اج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے*

*چمن میں تلخ نوائ میری گوارا کر*

             *کہ زہر بھی کرتا ہے کار تریاقی*

           *موجودہ* حالات میں علامہ قبال مرحوم کے یہ اشعار بار بار ذہن میں آرہے ہیں ۔ حالات کے تناظر میں ان پر بھی غور کریں ۔

 خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتان وھم و گماں لا الہ الا اللہ

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ

اگر چہ بت ہیں ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔