ہندوستان میں دینی مدارس کی ایک روشن اور تابناک تاریخ ہے۔ یہ ملک کی پسماندہ اور غریب اقلیت کا اعجاز ہے کہ اس نے دو دو چار چار روپے اکھٹا کرکے قوم کے لاکھوں بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور اخلاقی ڈسپلن کا اعلی انتظام کر رکھا ہے۔
مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد جب اس ملک میں اسلامی شان و شوکت کا چراغ گل ہوگیا اور تقریباً آٹھ سو سال مکمل عظمت و جلال اور شان و شوکت کے ساتھ حکمرانی کرنے والی قوم یک لخت زوال و پستی اور ذلت و نکبت میں گرفتار ہوگئی اور یہ خطرہ منڈلانے لگا کہ ہندوستان میں بھی اسپین و اندلس کی تاریخ دھرائی جائے گی تو اس وقت کے درویش صفت علماء نے مدارس اسلامیہ کی بنیاد رکھنی شروع کی اور سب سے پہلے ١٨٦٦ء میں دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے بعد ہر جگہ مدارس اسلامیہ کا جال پھیلتا چلا گیا جو دین اسلام کی حفاظت اور شریعت اسلامی کی بقا کے لیے یہ مدارس قلعے ،چھاونی اور پاور ہاؤس ثابت ہوئے اور یہاں کی اسلامی آبادی میں بجلی پہنچنا شروع ہوگیا۔
مدارس کا ماضی انتہائی روشن ✨ تابناک اور شاندار ہے اور ایثار و قربانی اور زہد و قناعت کے تمام اوصاف سے پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس جاں گسل حالات کے باوجود آج اس ملک میں اسلام کا اس شان کے ساتھ باقی رہنا دینی مدارس ہی کی دین ہے۔ اسلام کے شجر طوبی کے بچانے میں ان مدارس کا جو کردار ہے وہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے۔
مدارس اسلامیہ اگر چہ ہر دور میں ظاہری اسباب و وسائل سے خالی رہے لیکن ان کا اندورن مضبوط و مستحکم رہنے کی وجہ سے ان کی افادیت میں ہمیشہ ترقی ہی ہوتی رہی۔ تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا اخلاق و تربیت اور للہیت و تزکیہ کا، ہر میدان میں ان کے نقوش دلوں پر چھائے رہے۔ مدراس اسلامیہ کا مقصد کبھی علم برائے علم نہیں رہا بلکہ علم برائے عمل تھا۔ اس لیے ماضی میں اساتذہ اور طلبہ علوم ظاہری اور علوم باطنی کے جامع ہوتے تھے، کردار و عمل اور ذھن و فکر کے لحاظ سے طلبہ و اساتذہ مثالی نمونہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ صرف اساتذہ و طلبہ ھی آہ سحر گاہی کے پابند نہیں ہوتے بلکہ دربان میں بھی یہ صفت پائی جاتی تھی۔ ماضی میں مدارس کے اساتذہ میں قناعت تکلفات سے دوری، اور سادگی ہوتی تھی اور توکل علی اللہ ان کا خاص وصف ہوتا تھا اور یہی وصف ان کو ان کے شاگردوں کی نگاہ میں محبوب بنا دیتا تھا۔ وہ اجرت کی بجائے اجر پر نظر رکھتے تھے۔ اگر اس سلسلے کے واقعات لکھے جائیں تو ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ صرف ایک واقعہ ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ سید محمد مبارک محدث بلگرامی رح، مولانا نور الحق رح (مصنف تیسر القاری شرح فارسی صحیح بخاری) کے شاگردوں میں تھے، ان کے بارے میں میر محمد طفیل محمد بلگرامی نے نقل کیا ہے کہ ایک روز میں میر مبارک رح کی خدمت میں حاضر ہوا، میر مبارک وضو کے لیے اٹھے اور اچانک گر پڑے، ایک گھنٹہ کے بعد افاقہ ہوا، میر طفیل محمد نے بے ہوشی کی وجہ دریافت کی تو بہت اصرار کے بعد فرمایا :
'تین دن سے کوئی غذا میسر نہیں آئی ہے۔ لیکن نہ کسی کے سامنے زبان سوال کھولی اور نہ قرض لیا، میر طفیل محمد فورا گھر گئے، عمدہ کھانا جو آپ کو مرغوب تھا تیار کرایا اور خدمت میں پیش کیا، میر مبارک نے پہلے تو خوشی ظاہر کی اور دعائیں دیں، پھر فرمایا کہ بار خاطر نہ ہو تو ایک بات کہوں اور وہ یہ کہ جب تم میری یہ کیفیت دیکھ کر گئے تو مجھے خیال ہوا کہ تم میرے لیے کھانا لانے گئے ہو۔ اسی کو اشراف کہتے ہیں اور ایسے کھانے کو صوفیاء منع کرتے ہیں، اس لیے میں اسے نہیں کھا سکتا، شاگرد بھی باکمال اور نکتہ شناس تھے، فوراً کھانا اٹھا لیا، واپس لے آئے اور لمحہ بھر رک کر دوبارہ اسی کھانے کے ساتھ میر مبارک کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ جب میں نے اس کھانے کو اٹھا لیا تو یقیناً آپ کو یہ امید نہ رہی ہوگی کہ میں اسے دوبارہ آپ کے پاس لاوں گا۔ پس اب اشراف کی کیفیت باقی نہیں رہی، استاذ، نے شاگرد کی اس سمجھ داری کی داد دی اور پھر پوری رغبت سے کھانا تناول فرمایا' (ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ٣٩)
یہ تھا ماضی میں مدارس کے اساتذہ کا معیار لیکن اب صورت حال کیا ہے؟ اس سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ تو مبالغہ ہوگا کہ اس دور زوال میں دینی مدارس کے تمام اساتذہ سے میر مبارک کی کردار کی توقع رکھیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک اچھی چیز کی سطح گر بھی جائے تب بھی اس کا ایک معیار ہونا چاہیے۔
ماضی میں مدارس کے اساتذہ طلبہ اور پورا عملہ توکل اور استغنا کا خوگر ہوتا تھا۔ حالات کتنے ناسازگار و نامساعد کیون نہ ہو جائیں ان کے پائے استقامت میں جنبش نہیں آتی تھی، ان کے خیالات پاکیزہ اور ان کے ذھن دنیا طلبی و جاہ پرستی کے فتنوں سے پاک ہوتے تھے وہ عہدے اور منصب کے حریص اور لالچی نہیں ہوتے تھے وہ صرف اللہ کی خاطر اپنی مفوضہ ذمہ داری خلوص کے ساتھ ادا کرتے تھے۔
مدارس اسلامیہ کا نظام ماضی میں خاص طور پر شورائی ہوتا تھا۔ حساب و کتاب کی شفافیت، ہر مد کی رقم کا اسی مد میں استعمال۔ اخراجات کا صحیح طور پر اصولوں کے مطابق اندارج اور مجلس انتطامی میں اس کی توثیق، نیز مدارس کی املاک مدرسہ ہی کا نام پر ہوتی۔ شخصی ناموں پر نہ ہوتی۔ جس سے لوگوں کو بدگمانی کا موقع ہی نہ ملتا تھا اور مدارس باہمی ربط و ضبط، کے ساتھ کسی دوسرے کے درپہ توہین ہوئے بغیر اپنے مقصد کے حصول میں کوشاں تھے۔ ( مستفاد روز نامہ منصف جمعہ ایڈیشن ٢/اپریل ٢٠١٠ء)
نوٹ اگلی قسط مدارس اسلامیہ کا حال اور مستقبل کل ملاحظہ کریں۔