*مشہور* ادیب اور شاعر *حکیم احمد شجاع* ،علامہ *اقبال رح* کے دیرینہ نیاز مند تھے ،انہوں نے اپنی کتاب ۔۔ خون بہا۔۔ میں علامہ اقبال کے بارے میں بھی اپنی بعض یاد داشتیں قلمبند کی ہیں،اس کتاب میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مجلس میں، میں نے دینی مکاتب و مدارس کا تذکرہ کیا تو *علامہ اقبال* نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بڑی درد مندی اور دلسوزی کیساتھ فرمایا :*جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو۔ انقلاب ! ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے ۔ یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئ ہے ۔ ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مکتبوں میں پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ۔ اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرووں اور اسلامی تہذیب کے آثار کو کوئ نقش ہی نہیں ملتا،ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئ نشان نہیں ملے گا* (اوراق گم گشتہ ،از رحیم بخش شاہین بحوالہ چراغ راہ ص: ۹۲)اس میں کوئ شک اور شبہ نہیں کہ دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل ہے ۔ وہ دل جس کی دھڑکن زندگی کی علامت اور پہچان ہے اور جس کی خاموشی موت کی خاموشی بن جاتی ہے ،دل اگر پورے جسم میں خون پہنچاتا ہے اور اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے تو یہ دینی مدارس بھی امت مسلمہ کو دین کا خادم ، مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا وجود متحرک زندہ اور فعال رہتا ہے، تمام دینی جماعتوں تحریکوں،اداروں تنظیموں اور سوسائٹیوں کو یہیں سے قوت و طاقت کمک اور رسد پہچتی ہے ۔ اگر ان اداروں تحریکوں جماعتوں اور تنظیموں کو یہاں سے یہ پاور، طاقت و قوت اور انرجی نہ پہنچے تو ان کی فعالیت اور حرکت و حرارت میں کمی آجائے اور ایک طرح سے بے جان و بے حس ہو جائے ۔ داعی ہوں یا مبلغ دین کا خادم ہوں یا ترجمان امام ہوں یا خطیب مصنف ہوں یا مولف مرتب ہوں یا صحافی و محرر خطیب ہوں یا واعظ استاد ہوں یا مربی مفتی ہوں یا قاضی امیر ہو یا حاکم یا کوئ بھی خدمت گزار دین کے لائن سے ہوں یا سماجی ورکرر کے اعتبار سے سب اسی کے خوشہ چیں اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہوتے ہیں ۔مدارس اسلامیہ حفاظت دین ،فروغ دین اور اشاعت اسلام کا ذریعہ ہیں، تقریبا ڈیڑھ سو سالوں سے تو خود ہندوستان بلکہ بر صغیر میں ان مدارس کے جو خدمات اور کردار ہیں وہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے ۔ موجودہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے جو بھی جلوے ہمیں نظر آتے ہیں، وہ انہی مدارس کی دین ہیں اور انہیں دینی اداروں کا فیض ہے ۔ انہیں دینی اداروں نے اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایسے افراد اور ایسی ٹیم تیار کی ہے، جو اپنے زمانہ کے چیلنجون کا ڈٹ کر، آنکھ سے آنکھ ملا کر اور سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت ہر طرح کی قربانی دے کر امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا حوصلہ رکھتی ہے ،آپ ماضی قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے اور تاریخ کے ان اوراق کا مطالعہ کرلیجئے آپ کو معلوم ہ??گا کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئ آندھی اٹھی تو ان مدارس اور دینی جامعات کے فارغین اور فضلاء نے ہی اس باد سموم اور باد سرسر کا مقابلہ کیا اور امت محمدیہ کو راہ حق کی رہنمائی کی ۔
*اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی* *نہگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا*
دینی مدارس اسلام کی حفاظت گاہیں ہیں، ان مدارس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے، کہ ان کے بانیوں نے سرکاری مداخلت سے آزاد ہوکر ایسے دینی تعلیم کے نظام کی صورت دریافت کیا، جو غریب سے غریب مسلمانوں کے گھر میں علم کی شمع جلا سکے اور ہر کچے گھر میں دینی تعلیم کی شعاعیں پہنچ سکیں۔ ہمارے بزرگوں نے مدارس کے نظام کو نہایت ہی معمولی اور سادہ حالت میں رکھا، سادہ اور معمولی عمارتیں ۔ کم تنخواہیں پانے والے اساتذہ، مدرسین و خدام اور تصنع اور ظاہری ٹیپ ٹاپ سے خالی طلبہ۔ جن کا سراپا ان کی سادگی اور درویشی پر گواہ ہو۔ یہ ادارے مستقل اور قابل بھروسہ مالی وسائل سے محروم ہیں، عام مسلمانوں سے دو دو چار پیسے کی مدد ہی ان کا توشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں مدارس۔ اور درویش مزاج علماء نے اس ملک میں اسلام کی حفاظت کی ہے۔ انہوں نے عہد بہار ????سے کوئی صلہ نہیں کمایا۔ لیکن عہد خزاں میں اپنے خون جگر سے سینچ کر اسلام کے شجر طوبی کو بچایا، اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا، اور مسلمانوں کا اپنے دین اور مذہب سے نہ صرف رشتہ باقی رکھا۔ بلکہ اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سب کو اعتراف ہے کہ جاں گسل حالات کے باوجود آج اس ملک میں اس شان و بان کے ساتھ اسلام کا باقی رہنا دینی مدارس کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا اور انہوں نے ملک کے گوشہ گوشہ میں ایسے مدارس قائم کیءے جو ہمارے لیے لال قلعہ سے زیادہ مضبوط۔ چار مینار اور قطب مینار سے زیادہ بلند اور تاج محل سے زیادہ خوبصورت میراث ہے۔ ! (مستفاد از دینی و عصری تعلیم۔ مسائل اور حل ص: ٥٥)
اس وقت کورونا واءیرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ جو ادارے متاثر ہونے ہیں ان میں دینی مدارس سب سے آگے ہیں۔ کیونکہ رمضان المبارک میں ہی سفراء اور مبلغین و محصلین لوگوں سے خوشامد کرکے زکوۃ و خیرات اور عطیات و امداد کی وصولی کیا کرتے تھے اور اپنی انا اور خودی و خوداری کو مٹا کر یتیم اور محتاج بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لیے ان اصحاب ثروت کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس بار یہ سارے امکانات اور وصولیابی کی تمام شکلیں مسدود نظر آرہی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ مسلم قوم اور مسلمانوں میں جو جذبہ ایثار ہے، جس کا مشاہدہ لاک ڈاؤن میں ہم سب اور خود برادران وطن بھی کر رہے ہیں اور ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔ وہ قوم خود ان مدارس کے وجود و بقا کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کریں گے ۔اور دامے درمے قدمے اور سخنےتیار کھڑی ہوگی، اور جہاں اور جن مدارس میں ان کے رقوم صرف ہوتے تھے وہاں پہنچانے کے لیے بے چین و مضطرب ہوجاءیں گے۔ وہ جدید ذرائع ابلاغ و ترسیل کے ذریعے ان امانتوں کو وہاں تک ضرور پہنچاءیں گے۔ چوبیس سال سے میں مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ میں تدریسی خدمت انجام دے رہا ہوں۔ ہمارے مہتمم صاحب مدظلہ العالی نے مجھے سفارت کی ذمہ داری سے ہمیشہ فارغ رکھا اور صرف تعلیم و تبلیغ کا کام میرے حوالہ کیا یہی وجہ ہے کہ خاکسار نے یکسو ہوکر اپنے میدان میں کام کیا اور چار سال سے مسلسل بلا ناغہ لوگوں تک دین کی باتیں پہنچا رہا ہوں ، اللہ تعالی ہمارے مہتم صاحب کا سایہ تا دیر رکھے اور انہیں اور ان جیسے تمام لوگوں کو حیات خضر نصیب فرمائے آمین ۔ اس بار جب یہ حالات سامنے آئے تو کتنے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مدرسہ کا اکاونٹ بھیجنے کی درخواست کی۔ اور بعض نے ضرورت مند اساتذہ کی اعانت کا وعدہ کیا اور وعدہ کو پورا بھی کیا۔ اللہ تعالی ان سب کو بہترین بدلہ عطا فرمائے آمین۔ میں تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ سب اصحاب خیر خود فکر لے لیں کہ کس طرح ہم سفراء حضرات کے نہ پہنچنے کے باوجود، ہم اپنی رقم اور امانت ان اداروں تک پوری ذمہ داری سے پہنچا دیں گے۔ امید کہ ان باتوں پر بھر پور توجہ دیں گے اور دین کے اس قلعہ کی حفاظت کر ذریعہ بنیں گے۔