مسلکی فکری اور ادارتی خول سے نکل کر ایک مسلم سیاسی وفاق کا قیام

✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی

ہن??ستان میں مسلم قیادت کی کمی نہیں ہے ؛ ہر جماعت ، مسلک اور مکتب فکر میں مضبوط قد کاٹھ اور اچھی شہرت و شناخت رکھنے والی ان گنت شخصیات موجود ہیں ، ہندوستان میں مسلم قیادت کئی ایک داخلی و خارجی عوامل کے باعث حکمرانوں کی نظر میں بے وزن اور غیر موثر ہے ، سب سے خطرناک امر یہ ہے کہ سیاسی امور میں بھی یہاں شخصی ،مسلکی ، اور ادارتی انتسابات قائدین میں گہری خلیج پیدا کی ہوئی ہیں جو انہیں یکجا ہوکر موثر کارکردگی دکھانے سے مانع بن رہی ہیں ،یہاں کسی کی عوامی مقبولیت سے جل بھن کر یا شخصی وجوہات کے سبب ملی قائدین کے خلاف بے سند باتوں ،مکروہ پڑاپیگنڈوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ عرفی حیثیتوں کو مجروح کیا جاتا ہے ، کچھ قائدین کی “انا” ہمالیہ سے بھی اونچی ہوتی ہے ، جو برتری کے نشہ میں مست دوسروں کو جھکانے ہی کے فراق میں ہمیشہ رہتے ہیں ۔ بعض قائدین کی ساری تگ ودو اور کدوکاوش کا محور شخصی مفادات کا حصول ہوتا ہے ، جنہیں ذاتی مفادات کی لحد میں ملی اور مذہبی مفادات بڑی آسانی سے دفن کردیتے ہوئے کوئی عار آتی ہے نہ شرم ! بعض مسلم قائدین میں ملک میں موجود دیگر دینی اداروں اور ملی تنظیموں کی خدمات کے اعتراف کی بھی کمی ہے ،اپنی خدمات کے حوالے سے “یہی صحیح “ کہنے کی ذہنیت بدل کر “یہ بھی صحیح “ کہنے کی تعمیری سوچ عام ہوجائے تو ملی قائدین اور ان کے کارکنوں کے مابین ادارتی ،جماعتی اور گروہی کشیدگیوں اور ناہمواریوں کی راہیں مسدود ہوسکتی ہیں ۔ مسلم لیڈر شپ کو اپنی انا اور ابلتے ہوئے جذبات کی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف توہین آمیز القاب و ریمارکس سے بھی از بس گریز ضروری ہے ۔اس بابت بڑی کوتاہی دیکھی جاتی ہے ۔ جوشیلی، جذباتی ، ہیجان انگیز تقریریں اور غیر ضروری مسائل میں آستین چڑھا کر میدانوں میں کود پڑنےاور طوفانِ “ہائو ہو “ بپا کرنے سے بھی نفرتوں کی فضا ہموار ہوتی ہے ، اس سے گریز بہت ضروری ہے ، اس گناہ بے لذت سے فائدہ کچھ نہیں ، نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ دبی ، کچلی ، پِسی ، حالات سے دگر گوں ،سسکتی اور کراہتی مسلم اقلیت کے مسائل کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں مشترکہ آواز اٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں! جو ہیں بھی وہ مسائل ،مصلحتوں ، اندیشہ ہائے دور دراز ، خوف اور محبوب کے “زلف گرہ گیر “کے اسیر ، گونگے بہرے ،لبوں کو سیئے تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ سیاسی مناصب پہ موروثیت اور اقرباء پروری کی ذہنیت نے بھی مسلم قیادت کا برا حال کیا ہے ۔ اہلیت ،صلاحیت و قابلیت ،اور صاف ستھڑے شبیہ کے حامل ، بے باک اور جری نوجوانوں کو سیاسی صف میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم قیادت میں حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بند لائحہ عمل اور پلان بالکل نہیں ہے ، جلسے جلوس میں گلے پہاڑ پہاڑ کے لچھے دار بیانات سے نکل کر زمینی سطح پہ محنت کرنے اور جامع وہمہ گیر منصوبہ سازی کی ضرورت ہے ۔ زمینی محنت ، منظم پلاننگ اور مربوط کوششیں فتح یابی میں مؤثر رول ادا کرتی ہیں ، خوش نما ودل فریب جذباتی نعروں ، دعائوں اور اوراد ووظائف سے سیاسی میدان نہیں مارے جاتے ! “منَ جدَّ وَجَدَ “ ( کوشش کرنے والا بامراد ہوتا ہے ) کے اصول کے تحت اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے کسی کی محنت بھی ضائع نہیں کرتے ۔ بد قسمتی کہیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جلسے جلوس کرنے والی ہماری مسلم قوم ہے جبکہ منصوبہ بند پروگراموں کی ترتیب کے حوالہ سے یہ قوم سب سے پیچھے ہے بڑے سے بڑے جلسے کے بعد بیانات وخطابات کی تحسین وتنقید سے آگے ہماری رسائی نہیں ہوپاتی ہمارے پاس خطباء کی کمی ہے نہ لسّانوں کی ۔ کمی ہے تو منصوبہ بند مخلصانہ پروگراموں کی! جب تک ہمارے اندر یہ صفت پیدا نہ ہو حالات کا رخ موڑدینے والے مخلص افراد ہمارے پاس تیار نہیں ہوسکتے جب ہمارے پاس مخلص ،بے لوث وفادار افراد تیار نہیں ہونگے تو رائے عامہ کو ہم ہموار کیسے کرسکیں گے ؟ بی جے آر ایس ایس والے سینکڑوں سال آئندہ کی منصوبہ بندی کر رکھے ہیں۔ ملی ومذہبی قائدین سے لے کر عام کارکنوں تک (افراد کی بات ہے کلیات کی نہیں ) اپنی ذات کے حصار سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ۔تگ ودو کا سارا محور شخصی مفادات ہوتے ہیں (الاّ من رحم ربک) مذہب وملت کے نام کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔ آج ہماری سب سے بڑی طاقت و حقیقت اختیارات کا صحیح استعمال ، سیاسی شعور ، مستقبل کے لئے منصوبہ بند جامع پلاننگ ہے ۔ افسوس ہے کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی مسلم قوم اب تک اس معاملہ میں یتیم ہی ہے ۔ مسلکی اور فکری خول سے نکل کر محض سیاسی بنیادوں پر تمام مسلم قائدین کو جورنے کے لئے ایک وفاق کے قیام کی سخت ضرورت ہے۔فقط شکیل منصور القاسمی بیگوسرائے

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔