ایک موقع پر نبی کریم صلی الله عليه وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں بہترین شخص کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ہر وہ شخص جو مخموم القلب ہو اور زبان کا نہایت سچا ہو، صحابہ رض نے عرض کیا کہ صدوق اللسان، یعنی زبان کا نہایت سچا تو ہم سمجھ گئے لیکن مخموم القلب ہماری سمجھ میں نہیں آیا، اس کی وضاحت فرمادیں۔ آپ نے فرمایا: یہ وہ صاف دل اور خدا ترس شخص ہے جس پر نہ تو گناہ کا بوجھ ہو اور نہ ظلم و تعدی کا کوئی بار ہو اور نہ دل میں اس کے کسی کے لیے کوئی غبار ہو اور نہ حسد۔ ابن ماجہ / بیہقی
مذکورہ حدیث میں معیاری مومن اور انسان مطلوب کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ نہایت واضح اور مکمل ہے۔ اس میں انسانی سیرت و کردار کے تمام روشن پاکیزہ اور مثبت پہلو کا ذکر ہے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کو کس اخلاق و کردار، سیرت و اطوار اور کیریکٹر کے افراد مطلوب ہیں اور اسلام کن لوگوں کو مثالی اور معیاری انسان قرار دیتا ہے۔
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی الله عليه وسلم نے مومن کی معصومیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: مومن بھولا بھالا صاحب کرم وفا اور فاجر بخیل و بدبخت ہوتا ہے۔ ابو داود /ترمذی
اس حدیث میں معیاری مومن کی صفت غر کریم کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کم فہم اور نادان نہیں ہوتا، لیکن اپنی فیاضی طبعی اور حسن خلق کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ اس کا معاملہ شفقت، سہولت، نرمی اور وسعت و کشادگی کا ہوتا ہے وہ دھوکا کھا جائے یہ تو ممکن ہے، لیکن اس سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی شخص کو دھوکہ دے گا، اس کے برخلاف فاجر اور عیار شخص نہایت چالباز اور سینانا ہوتا ہے۔ وہ بدکردار، چالاک، چالباز، مفاد پرست اور سیانا ہوتا ہے، اس میں اخلاق کی بلندی نہیں ہوتی، وہ منفی اور نیگیٹو کرادر کا حامل ہوتا ہے۔ وہ فریب کا ہوتا ہے۔ اس کے ذھن و دماغ میں ہر وقت شر و فساد ہوتا ہے اس سے ہمیشہ بخل، شر اور برائی و فساد کا اندیشہ رہتا ہے وہ اپنے مفاد کے لیے معمولی معمولی بات پر جھگڑا فساد کرتا ہے اور رشتہ و ناطہ کے ٹوٹنے کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ایسا فاجر و سیانا آدمی دولت کا اتنا حریص ہوتا ہے اور اس کی محبت میں اتنا گرفتار رہتا ہے کہ اس کو اپنے مفاد کے علاوہ دوسرے کا مفاد کبھی عزیز نہیں ہوتا اور اس کے شح نفس اور بخل کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر دوسرا کوئی سخاوت کرتا ہے، کسی پر خرچ کرتا ہے،تو اس سے بھی اس کو تکلیف ہوتی ہے۔
غیر معیاری انسان کی ایک پہچان اور علامت حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ جھگڑالو ذہنیت کا ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً رویت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض و ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا جھگڑالو ہو۔ (ترمذی)
جھگڑالو شخص کسی بھی سماج و سوسائٹی اور معاشرہ کے لیے ایک مصیبت ہوتا ہے، جس کو بس جھگڑا کرنے میں ہی لطف آتا ہے اور جو شخص ہر وقت لوگوں سے جھگڑا کرنے کے لیے آمادہ رہتا ہے۔ جھگڑالو ذہنیت رکھنے والا شخص کبھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنا ذھنی توازن کھوئے رہتا ہے۔ ایسے شخص سے کسی بھلائی کی توقع اور امید نہیں کی جاسکتی۔ ایسا کم ظرف شخص خدا کی نگاہ میں سب سے زیادہ ذلیل و مبغوض ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تیرے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا ہی رہے۔( ترمذی )
اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے اتنی سی بات کافی ہے کہ وہ جھگڑالو ہو اور لوگوں سے ہمیشہ لڑتا جھگڑتا رہتا ہو۔ ایسا شخص خواہ وہ کسی گناہ میں ملوث ہو یا نہ ہو، خدا کی نظر میں اس کے گنہگار قرار پانے کے لیے یہی ایک برائ بہت ہے کہ وہ جھگڑالو قسم کا آدمی ہو۔ ( کلام نبوت جلد دوم)
اوپر ایک معیاری مومن اور غیر معیاری ??ومن کے فرق کو واضح کیا گیا ہے، ایک آئنہ دکھایا گیا ہے اس آئنہ، میں ہم سب اپنی اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنے بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہم کس کٹیگری میں آتے ہیں اور ہمیں اپنے چہرے پر لگے دھول اور دھبے کو کتنا صاف کرنا ہے۔
انسان مطلوب یا معیاری مومن کے لیے جو بنیاد ہیں، وہ ہے دل، زبان اور کردار کی درستگی۔ دل، زبان اور کردار یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں۔ جن سے شخصیت کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔ حدیث میں ان تینوں اجزاء کے ذریعہ سے انسان کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اس میں اس کے ظاہر و باطن دونوں کی پاکیزگی اور حسن و خوبی نمایاں ہے۔ ایسے شخص کے ایک شخص کے ایک بہترین انسان ہونے میں کسی شخص کو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔
زبان جھوٹ اور کذب سے ناآشنا اور دل ہر طرح کے غبار اور گندگی و کثافت سے خالی اور پاک ہو اور کردار میں کہیں ظلم و زیادتی و شرو فساد اور جھگڑا و تکرار کا نشان موجود نہ ہو تو آدمی کی شخصیت میں جو حسن و کمال اور دلآویزی پیدا ہوگی اس کا اندازہ کرنا کسی کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اگر ایسے افراد کی معاشرہ، اور سماج میں کثرت ہوجائے تو وہ معاشرہ اور سماج کتنا پاکیزہ اور وہ سوسائٹی کتنی خوبصورت ہوگی۔ خدا کرے ہم ویسا معیاری انسان اور مطلوبہ مومن بن جائیں جس پر فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے اور جو خدا کی مرضی اور خوشنودی کا ذریعہ بنتا ہے آمین