???? *صدائے دل ندائے وقت*????(852)
*ملک معاشی اعتبار سے تباہی کو تیار ___!!!*
*پونیہ پرسون جوشی ایک معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہیں، ان کے مطابق ملک کی معیشت اس وقت سب سے زیادہ خراب صورت حال میں ہے، یہ بہت تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر کسی کو فکر نہیں ہے، سیاست ہی اس وقت دیوی اور جمہوریت کا چہرہ ہے، ایک جگہ سرکار بنی نہیں کہ دوسری جگہ سرکار بنانے کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں، انسانی زندگی سے کسی کو لگاؤ نہیں ہے، عوام بھی اسی کی چکاچوندھ میں کھو جاتی ہے، اس کی جیب پر کٹوتی کی جارہی ہے، رسوئی گیس اب خریدنا محال ہے، عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر ایم پی اور ایم ایلیز کو سہولیات دی جارہی ہیں، وہ سرکاری خرچ پر عیش کر رہے ہیں اور لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، ہر روز کھانا نہ ملنے والوں کی موت اور عام زندگی کی سہولیات نہ مل پانے پر خودکشی کی شرح کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے؛ کیونکہ اب سرکار ڈاٹا بھی دکھانے کو تیار نہیں ہے، اسی بیچ ان کی یومیہ روزی روٹی کے سہارے کو بھی مار دیا دیا گیا، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے سب تباہ کردیا، ملک کے بازاروں میں سناٹا پسرا ہوا ہے، بینک کا دیوالیہ نکل رہا ہے، عوام ہی کے پیسے ڈوب رہے ہیں، محنت و جفاکشی سے کمائی گئی رقم یونہی برباد ہورہی ہے، سرکار نے ریزرو بینک پر بھی دستک دیدی ہے، اسے بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، ایس بی آئی نے یس بینک میں پیسے لگائے؛ لیکن شئر مارکیٹ کریش ہر گیا.*
*عالمی بازار میں کچے تیل کی قیمت گھٹ گئی، اچانک سعودی عرب نے کچے تیل کی قیمت کم کر دی اور ایک عجیب و غریب کشمکش شروع ہوگئی، اس کی چپیٹ میں ملک کی سب سے بڑی کمپنی ریلائینس بھی آگئی، جسے اب جیو کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ہر ایک کی جان ہے، اس کے کئی فیصد شییرز گر گئے، اور یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ اگر ریلائینس بھی گر جائے، تو عوام کا کیا ہوگا، نہیں بلکہ یہ کہئے کہ ملک کا کیا ہوگا؟ کیونکہ سرکار نے اسے ہی تو سب کچھ دے رکھا ہے، اس کے سامنے اس وقت کوئی بھی کمپنی نہیں ہے، وہ تو ملک اور سرکار سے بھی بلند قامت ہوگیا ہے؛ بالخصوص عالمی پیمانے پر وہی کمپنی ہے جسے سب سے زیادہ اختیارات ہے، اس نے ملک کی اکانومی سنبھال رکھی ہے، مگر افسوس گورنمنٹ نے کوئی کھلا میدان نہ چھوڑا، اس وقت تو سرکار کی ساری پالیسیاں اوندھے منہ گر رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہیں معیشت کی کوئی سمجھ ہی نہیں ہے، بینکوں کو merg یعنی ایک دوسرے سے ملادینے کی نوبت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کچے چاول اور پکے چاول دونوں خلط ملط کردیئے جائیں گے، تب دونوں کا ہی نقصان ہوگا، مارکیٹ پر اس وقت سب زیادہ گراوٹ ہے، ملک میں فساد کے بعد تیزی کے ساتھ شئر بازار نے گراوٹ درج کی ہے، ظاہر ہے کہ دہلی میں مسلم کشی نے لاکھوں، کڑوروں کا نقصان کیا ہے، جو براہ راست ملک کا گھاٹا ہے، معیشت کا نقصان ہے، یہ اندھے اور نابینا ہیں جو صرف خاص طبقے کا نقصان تصور کرتے ہیں، ملک ایک گھر ہے، گھر کے کسی بھی کونے میں آگ لگے بہر کیف ہر ایک پر اثر ہونا ہی ہے.*
*اس وقت پوری دنیا میں کرونا وائرس کی تباہی نے بھی بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، ہندوستان کی بیرونی پالیسیوں پر پانی پھیر دیا ہے، اب زائرین نہیں آتے، لوگ یہاں تجارت کرنے نہیں آتے، سبھی پر بے اعتمادی کا گھنا بادل منڈلا رہا ہے، یہ سب بھی اگرچہ ملک کی معیشت میں اہم رول رکھتے ہیں، مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سرکار خود اپنی پالیسیوں کی بناپر اپاہج ہوچکی ہے، اور اس کے بے سر و پیر کے فیصلے نے ملک کی کمر توڑدی ہے، آپ اندازہ کیجئے؛ کہ دہلی یونیورسٹی کے ماتحت تقریباً گیارہ، بارہ کالجوں کے پروفیسرز اور ٹیچرز کو تنخواہ نہیں دی گئی ہے، کسان یوجنا میں ملنے والے پیسے کسانوں کو نہیں پہونچ رہے ہیں، طلباء کو ملنے والی اسکالرشپ بھی نہیں مل رہی ہے، ایم ٹی این ایل اور کئی سرکاری شعبوں کے ملازمین کو تنخواہ نہیں دی جارہی ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دس اور گیارہ مارچ 2020 کو ملک نے شئر مارکیٹ میں سب سے بڑا نقصان جھیلا ہے، تقریباً اکیس لاکھ کڑور روپے ڈوب گئے ہیں، یہ رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہے، آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس ہندوستانی گورنمنٹ وصول کرتی ہے، پورے سال میں تمام طرح کے ٹیکس ملا کر لگ بھگ بیس لاکھ کڑور روپے حاصل کرتی ہے، لیکن یہاں تو دو دن میں ہی سال بھر کی کمائی غارت ہوگئی ہے.*
*مگر ہائے افسوس کسی کو بھی خیال نہیں ہے، پورا نظام بکھرا پڑا ہے، میڈیا اس رخ پر کبھی غلطی سے بھی بات نہیں کرتی ہے، وہ تو بس ہندو مسلمان کے سوا کچھ کرتی ہی نہیں ہے، اور سیاست دان سرکار بنانے میں جٹے ہوئے ہیں، عام آدمی کیا کرے__؟ اس کے پاس اندھ بھکتی کے سوا کیا رہ گیا ہے، وہ بھی روکھی سوکھی کھا کر سو جاتا ہے، اپنے حق کی آواز بلند نہیں کرتا، نہ کہتا ہے نہ سنتا ہے، نہ لکھتا ہے نہ بولتا ہے، اسے سیاست کی چمک اتنی بھا گئی ہے؛ کہ اپنے مفادات بھی نظر نہیں آتے، ملک کا غرق ہوتا معاشی سفینہ بھی دکھائی نہیں دیتا، کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اعلی طبقے کے لوگوں پر کوئی کھروچ نہ آئے گی، وہ تو عیش وعشرت میں رہیں گے، یہاں نہ سہی تو کسی دوسرے ملک میں جا بسیں گے، مگر آپ خود کا خرچ اور سرکار کا ٹیکس نکالتے نکالتے دم توڑ دیں گے، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ماہرین کہتے کہ ایک دن آئے گا؛ کہ ملک بھی عالمی اعتبار سے کنگال قرار دے دیا جائے گا، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت 1989 اور 2008 سے بھی زیادہ بدتر صورت حال ہے، ان زمانوں میں بھی ملک کا شئر مارکیٹ اس قدر گراوٹ کا شکار نہ تھا، جتنا کہ اب ہے، بہت ضروری ہے کہ بیدار ہوا جائے، آواز بلند کی جائے، اور سرکار کو مجبور کیا جائے کہ وہ کام پر دھیان دے، معیشت پر توجہ دے، عوام کے معاشی بنیادوں کو مضبوط کرے، فیکٹریوں کو مدد کرے، درآمد و برآمد کی راہ نکالے، ورنہ ادھر ادھر کے چکر میں کشتی ڈوب جائے گی، نہ سالار بچے گا، نہ سپاہی بچیں گے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
14/03/2020