???? *صدائے دل ندائے وقت*????(989)
ملک میں سیلاب کا طوفان
قدرتی آفتوں میں بارش کا بھی کارنامہ جڑ گیا ہے، پانی خدا کی قدرت اور عظیم نعمت ہے، انسان کے خشک گلے کو تر کرتا ہے، خود اس کی اٹھان پانی سے منسلک ہے، اس کے باوجود پانی کا غضب یہ ہے کہ انسانی بستیوں، گھروں اور آبادیوں کو اپنے ساتھ تنکے کے مانند بہا لے جاتا ہے، عموماً دنیا میں اس کا طوفان آتا ہے؛ لیکن ہمارا بھارت کچھ خاص امتیاز رکھتا ہے، یہاں پانی سیلاب بن کر قہر ڈھاتا ہے، ترقی پذیر علاقوں کی ترقی اپنے ساتھ لے جاتا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سال ہو بہو صورتحال رہتی ہے، اس وقت آسام، بہار، گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش جیسے صوبے بری طرح متاثر ہیں، بالخصوص آسام میں ستر لاکھ سے زائد لوگ موت کی دہلیز پر ہیں، سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں، جانوروں کی لاشیں بہتی ہوئی پائی جارہی ہیں، انسانوں کے گھر بار، بچے اور بچیاں سبھی کچھ تباہ ہوگئے، کچے مکان میں بسنے والے اپنے گھروں سے محروم ہوگئے، اکثر و بیشتر ایسے مناطر دیکھے جارہے ہیں جن میں گھر بھی ڈھہ گئے یا گھاس پھونس کے مکان پانی پر تیرنے لگے، غریب دانے دانے کو ترس رہے ہیں، بھوکے پیٹ بیوی، بچوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہیں، بارش کا قہر اب بھی جاری ہے، محکمہ موسمیات نے مزید آگاہ کیا ہے، آئندہ بد سے بدتر صورت ہوسکتی ہے، اس کے باوجود موجودہ سرکار نے اسے نظرانداز کردیا ہے، ذرائع ابلاغ بھول چکے ہیں کہ ملک میں کوئی آسام نامی صوبہ بھی ہے، برہم پتر ندی کا یہ ابال ہر سال جاری رہتا ہے، یہ دنیا پانچ عظیم ترین ندیوں میں سے ایک ہے، اس کی تاریخ بڑی روشن ہے، اس نے ہی مغل کو روک رکھا تھا؛ لیکن اب یہی مصیبت بنی ہوئی ہے، ہر سال اسے درست کرنے اور باندھ بنا کر آبادی کو سیلاب سے محفوظ کرنے کی پیشکش ہوتی ہے؛ لیکن اب تک یہ منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا، البتہ سرکار نے زیر ندی ایک سرنگ بنانے کا منصوبہ پاس کردیا ہے، جس کے ذریعہ چین کی حرکتوں پر نگاہ رکھی جائے گی؛ مگر اس کی کوئی یقین دہانی نہ کرائی گئی کہ اپنی آبادی کا کیا ہوگا؟ لوگوں کے بے گھر ہونے اور در در بھٹک کر پانی کی رو میں مرجانے کا علاج کیسے کیا جائے گا؟*
*سیلاب کا یہ طوفان بہار کو بھی زد میں لئے ہوا ہے، یہاں تقریباً اڑتیس میں سے گیارہ اضلاع متاثر ہیں، مگر سرکار سال کے اخیر میں ہو رہے انتخابات پر نظریں گڑائے بیٹھی ہوئی ہے، تاحد نگاہ پانی کے اوپر اپنے ووٹ بینک کی پیراکی دیکھ رہے ہیں، گھروں، محلوں، سڑکوں، اسپتالوں میں پانی پہونچ چکا ہے، سڑکیں بہہ رہی ہیں، پل ٹوٹ رہے ہیں، لوگوں نے امید چھوڑ دی ہے، سرکار اور سیاست کے سامنے زندگی ہارتے ہوئے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں، یہاں کئی مشہور ندیاں ہیں باگھمتی، گنڈک، گھاگرا، ادوارا ،مہانندا، کوسی وغیرہ یہ سب خطرے کی نشان سے اوپر بہہ رہی ہیں، لیکن سوائے وعدے کے کچھ نہیں، لوگ کی جیب تک چند پیسے پہونچا کر گدی سنبھالے رہنے کی پالیسی چلی جارہی ہے، مستقبل حل کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی؛ اسی طرح گجرات کی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے، یہاں لگ بھگ سو افراد مارے جا کے ہیں، مگر گجرات ماڈل کی دہائی دینے والے اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کیلئے سبھی کچھ برداشت کر رہے ہیں، عوام کی پکار کوئی نہیں سن رہا ہے، وزیر اعلی نئی نئی فتح کے جشن میں ڈوبے ہوئے ہیں؛ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں خود کو فٹ کرنے اور ملک کے سامنے برعکس تصویر دکھانے کی کوششوں میں ہیں، نیز مدھیہ پردیش میں چوالیس اموات ہوچکی ہیں، مزید بارش کی پیشن گوئی کی گئی ہے، سرکار کے بڑے بابو شوراج سنگھ چوہان خود کرونا مثبت ہو کر لگزری اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں، جوڑ توڑ کی سیاست اور ایک دوسرے کو حریف بنا کر ملک کا سودا کرنے والے عوام کو بھول چکے ہیں، تو وہیں مہاراشٹر میں چھیالیس سے زائد موت ہوچکی ہے، وہاں کرونا وائرس نے بھی زندگی اتھل پتھل کردی ہے، گٹھ جوڑ کی سرکار اپنی تعمیر کو پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے کی دیکھ ریکھ کرنے میں مصروف ہے، ان سب چیلنجز کے باوجود وزیراعظم نے اب تک سیلاب زدگان کو کوئی پیغام تک نہیں دیا ہے، آسام میں موتوں کا بازار گرم ہونے کے باوجود وہاں راحت کیلئے کچھ خاص نہ کیا گیا، سبھی رام مندر، ہندو مسلم، ہندو راشٹر، ہندوازم اور آر ایس ایس کی تھیوری کو حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ملک عوام کیلئے نہیں؛ بلکہ ایک خاص جماعت کیلئے ہے، جو اپنے مفادات کے سامنے عوام کو بیچ چکی ہے، انہیں دھکے مار کر اپنے تمام تر منصوبوں سے باہر کر چکی ہے، اب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، سیاست کے گلیاروں میں لوگ موج و مستی کیلئے وقف ہو چکے ہیں اور عوام صرف انگوٹھا دبانے کیلئے رہ گئی ہے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
29/07/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔