مناظروں کی حقیقت و افادیت

بسم الله الرحمن الرحيم *مناظروں کی حقیقت و افادیت*

????*ابوحنظلہ عبدالاحدقاسمی*

قارئین کرام: مناظرے کے صبر آزما اور ہمت شکن میدان میں اپنے اعصاب پر قابو رکھ کر دلجمعی ،استحضار علمی اور حاضرجوابی کے ساتھ مسلک حقہ کی ترجمانی اور باطل عقائد ونظریات کی بیخ کنی بڑے الوالعزم اور فولادی جگر رکھنے والے حضرات کا کام ہے، یہ وہ میدان ہے جہاں منبرخطابت اور تذکیر و وعظ کی طرح ہرقسم کی گری پڑی، رطب و یابس اور بے صفحہ کی باتیں نہیں چلتی بلکہ زبان سے نکلنے والے ہر ہر جملے کے ثبوت میں دلائل و براہین اورحوالہ جات کے انبار لگانے پڑتے ہیں، اس میدان میں نزاکت طبعی اور لطافت مزاجی کی بالکل گنجائش نہیں یہاں سخت اعصاب والے جواں ہمت مردوں کی طوطی بولتی ہے، یہ خشک طبع صوفیوں اور صلح کلی زاہدوں کا میدان نہیں بلکہ یہ بصیرت وبصارت کے ساتھ، ملامت گروں سے بےپرواہ، مداہنت پسندوں سےمتنفر، امربالمعروف ونہی عن المنکر کی احساس ذمہ داری سے مغلوب طبیعتوں کی ڈگرہے، یہاں علم کی چندکلیوں پرقناعت کرجانے والوں اور چندکتابوں پرمطمئن ہوکر بیٹھ جانے والوں کی کوئی جگہ نہیں بلکہ یہاں علم کے بھوکے، تحقیقات کے پیاسے، کتابوں کے حریص، صفحات کو کھاجانے والے اور حواشی وبین السطور کو چٹ کر جانے والے بہادروں کے پرچم لہراتے ہیں، یہاں عام مصنفین اور واعظین کی طرح حوالوں کے سرقے نہیں چلتے بلکہ پیشانی کی آنکھوں سے سیاق وسباق دیکھ کرہی قرار آتا ہے، یہ میدان امام ابوحنیفہؒ، ابوالحسن اشعری، ابوحامدغزالی، فخررازی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، شاہ شہیدؒ، قاسم نانوتوی، رشیداحمدگنگوہی، محمودالحسن دیوبندی، خلیل احمد سہارنپوری، انورشاہ کشمیری، مرتضی حسن چاندپوری، منظورنعمانی، امین اوکاڑوی، طاہرحسین گیاوی جیسے الوالعزم ،جرأت و حوصلوں کے کوہ گراں، علم وفضل کے نیرتاباں، اسلام دشمن طاقتوں کیلئے شمشیربراں، عظیم ہستیوں کا ہے ،۔اس لئے

سنبھل کر پاؤں رکھئے گا میکدے میں شیخ صاحب یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں بعض لوگوں کو مناظرے کے نام سے ہی خدا واسطے کا بَیر ہے جبکہ مناظرہ کا حکم قرآن میں موجود ہے ،ارشاد باری ہے "وَجَادِلْھُمْ بِاللَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔الایہ۔ قرآن پاک میں سیدنا ابراہیم اور موسی علیہما السلام کے مناظروں کا بیان موجود ہے، خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے مناظرہ کیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خوارج سے مناظرہ کیا، امام اعظم ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام شافعی، امام ابویوسف، امام محمد، امام ذھلی، امام طحاوی، امام ابوالحسن اشعری، امام ابومنصور ماتریدی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز اور شاہ اسماعیل شہید رحمھم اللہ جیسے اکابر و اساطین کے ہزارہا مناظرے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں، ہم جن اکابر دیوبند کے نام لیوا ہیں انہوں نے ضرورت پڑنے پر کبھی مناظروں سے دریغ نہیں کیا، قاسم العلوم حضرت نانوتوی اور ان کے شاگرد رشید شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہما اللہ نے تقریباً تمام ہی فرقوں سے مناظرے کئے اور بار بار کئے، اقدامی بھی کئے دفاعی بھی کئے، تقریری بھی کئے اور تحریری بھی کئے ،(ملاحظہ ہو”سوانح قاسمی “وغیرہ) حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے خود تو مناظرہ نہیں کیا لیکن اپنی سرپرستی میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ سے بھاولپور کا مشہور وتاریخی مناظرہ کروایا،(ملاحظہ ہو”تقدیس الوکیل“) حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ بذات خود احمد رضا خان سے مناظرے کے لئے تیار ہوگئے تھے ،(ملاحظہ ہو ،”رسائل چاندپوری“) علامہ انورشاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا مرتضی حسن چاندپوری رحمہم اللہ بریلویوں کے چیلینج پر خورجہ بلندشہر مناظرہ کرنے پہنچ گئے تھے،(ملاحظہ ہو ”قاصمۃ الظہر فی بلندشہر“) ۔ حیرت کی بات ہے ان حضرات کو مناظروں میں نہ تو کوئی عار محسوس نہیں ہوئی نہ امت کا نقصان نظر آیا لیکن آج کل ایسے جدید متحققین نے جنم لے لیا ہے جنہیں سارے جہان کی خرابیاں صرف مناظروں اور مناظرین میں نظر آتی ہیں جبکہ علماء حق میں مناظروں کا ذوق رکھنے والے حضرات کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ جو لوگ حالات کی خرابی کا بہانہ کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے اکابرین نے اس وقت بھی مناظروں سے دریغ نہیں کیا جب ان کے سر پر انگریزی حکومت مسلط تھی اور حالات آج کے بنسبت بدرجہا خراب تھے ۔ مناظرہ تبلیغ کا ہی ایک فرد ہے اور ضرورت کے وقت فرض کفایہ ہے، ہاں بلاضرورت اور محض شہرت طلبی یا کسی غلط مقصد و نیت کے ساتھ ناجائز و حرام ہے لیکن اس میں مناظرے کی کوئی تخصیص نہیں جو بھی کام غلط مقصد و غلط نیت کے ساتھ کیا جائے چاہے تقریر و خطابت ہو یا دعوت و تبلیغ سب کا یہی حکم ہے ۔ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ یوں ہی فارغ اور بیکار بیٹھے ہیں اس لئے مناظروں کے چکر میں پڑے رہتے ہیں ،ایسے ساتھیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ بخدا ہم لوگ حتی الامکان مناظروں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کو بھی ممکن حد تک اہل باطل کی فضولیات سے دور رہنے کی ہی تلقین کرتے ہیں لیکن جب اہل باطل کی جانب سے حد پار کردی جائے اور پانی سر سے اوپر چلاجائے اور مناظرہ نہ ہونے کی صورت میں اپنے ساتھیوں کے شک و شبہ میں پڑجانے کا خطرہ پیدا ہوجائے تو پھر ہم مناظرے کو فرض کفایہ سمجھتے ہیں، ہمیں دنیاوی مفاد کی طلب نہیں اور اگر ہو بھی تو ملتا نہیں کیونکہ ہمارے یہاں دینی پروگراموں کے عوض لین دین کا رواج نا کے برابر ہے، ہمارے میزبان ساتھی اگر سفرخرچ بھی پورا دیدیں تو غنیمت ہے، اور اگرنہ دیں تو مانگنے کی جرأت ہمارے بس سے باہر ہے، ناچیز کی صورتحال تو یہ ہے کہ جب بھی مناظروں کامعاملہ پیش آیا ہے ہمیشہ قرضے لیکر ہی اس کے اخراجات کی ادائیگی ممکن ہوسکی ہے، کیونکہ مناظروں کیلئے کتابوں کی فراہمی نہایت کثیرالمصارف مسئلہ ہے اور کتابوں کے بغیر مناظرے کاتصور ہی ناممکن ہے، ہربار نئی نئی باتیں نئے نئے اعتراضات پیش آتے ہیں جن کیلئے ہربار نئی نئی کتابیں درکارہوتی ہیں، اور یہ میدان تو ایسا ہے کہ اس میں کتابیں جتنی زیادہ ہوں اتنی ہی کم معلوم ہوتی ہیں، بعض کتابیں تو ہمیں ایسی حاصل کرنی پڑتی ہیں کہ ان کی اصل قیمت تو بہت کم ہوتی ہے لیکن ان کی افادیت اور کم یابی کی وجہ سے ہمیں دس سے بیس گنا بلکہ بسا اوقات پچاس اور سو گنا تک قیمت چکانی پڑتی ہے ، جوحضرات اس میدان سے وابستہ ہیں وہ بخوبی واقف ہیں ، ہاں! ایک بہت بڑی وبا جو اس میدان میں کام کرنے والوں میں پیدا ہوجاتی ہے وہ عجب، خود پسندی اور شہرت طلبی ہے، ہم اپنے آپ کو ان برائیوں سے مبراء تو نہیں سمجھتے لیکن وقتاً فوقتاً اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتے رہتے ہیں، اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور بصیرت و بصارت کے ساتھ خلوص نیت سے احقاق حق و ابطال باطل کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَّ ارْزُقْناَ اتِّبَاعَه، وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَه-

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔