موجودہ حالات میں ہماری حکمت عملی کیا ہو قسط نمبر 2

موجودہ حالات میں ہماری حکمت عملی کیا ہو ؟

قسط نمبر 2 *

*محمد قمر الزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ*

*میثاق مدینہ* اور اسلام کے خارجہ و داخلہ پالیسی ہی کا فیض ہے کہ بہت سے ملکوں نے اس سے استفادہ کرکے اس کی روشنی میں اپنے ملک کے قوانین کو طے کیا خاص طور پر داخلہ اور خارجہ، پالیسی کو وضع کیا۔ تمام مغربی ممالک میں مختلف مذاھب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اپنی تعلیم کے لیے اسکول بنانے اور اپنے شہری حقوق حاصل کرنے کی آزادی ہے ۔ صرف برطانیہ میں 75 سےزیادہ مذاہب کے لوگ پانے جاتے ہیں اور سب اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں ان کے خلاف کبھی کوی سازش نہیں کی گی کہ ان کو زبردستی عیسائیت کی کسی شاخ سے وابستہ کیا جائے ۔ آج بھی وہ اپنے طرز پر پیدائش اور موت کے رسوم ادا کرتے ہیں اپنی صنم پرستی پر قائم ہیں ۔ مسلمان اپنی مسجدیں بناتے ہیں وعظ و نصیحت اور تقریر کی مجلسیں ہوتی ہیں ۔ حکومت وقت صرف یہی نہیں کہ ان کو عقیدہ اور خیال کی آزادی دیتی ہو بلکہ اپنے بنیادی قانون کے مطابق ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق دیتی ہے، ہزاروں افریقن اور انڈین شرق اوسط اور شرق بعید کے باشندے علاج غذا اور تعلیم کی وہ سہولت حاصل کر رہے ہیں ، کوئ ان کی صورتیں دیکھ کر ان کے مرکز عقیدت کو جان کر ان پر حرف گیری نہیں کرتا ،شرق اوسط کے ایک بہت چھوٹے سے ملک لبنان میں عیسائیوں کے آٹھ فرقے موجود ہیں، اور سب اپنے اپنے آئین کے مطابق زندگی گزارتے آ رہے ہیں اور ان میں کبھی تصادم نہیں ہوا ۔ ملیشیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جس کی حکومت مسلم حکومت شمار ہوتی ہے وہاں بے شمار مندر بھی ہیں ۔ پاٹھ شعلے بھی ہیں گردوارے بھی ہیں اور سب اپنی جگہ مطمئن ہیں ۔ تمام اسلامی ممالک میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کے پرنسل لا کی بھرپور رعایت کی جاتی ہے ان میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاتی ۔ بدقسمتی صرف ہمارا ملک عزیز ہندوستان ہے جہاں چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے،یہاں ایک مدت سے ایک مذھب اور ایک ذات کی حکومت کو پورے ملک کا آئین بنانا طے کرلیا ہے یہ بات اگرچہ انوکھی اور ہٹ دھرمی کی ہے مگر واقعہ ہے جس سے ہم مسلمان دو چار ہیں ۔ مسلمانوں نے اس ملک کو کبھی پردیس نہیں سمجھا اس ملک کے ذرے ذرے پر ان کا احسان ہے ۔اس کی آزادی میں ان کا خون کسی سے کم نہیں بہا یہ ملک ان کا اسی طرح ہے جیسے برادران وطن کا ۔ بعض لوگ اس کو صرف سازش سمجھتے ہیں اور مسلمانون کے خلاف جو بیج تقسیم ملک نے بوئے تھے اس کو اپنے الیکشن کے خاطر لوگ اس کی کاشت کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اب یہ صاف ہوگیا کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ ٹھوس پلانگ ہے ۔ بہر حال ہم مسلمان اس ملک میں بے انصافی کی صورت حال کا شکار ہیں ۔ لیکن اس صورت حال کے پیش آنے میں ہماری بھی غفلت اور کوتاہی ہے ہم نے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائ ، اپنی صفوں کو متحد نہیں رکھا ۔ ہماری جماعتیں اور تنظیمیں باہم دست و گریباں رہیں ۔ ہم فروعی اور اختلافی مسائل میں الھجے رہے ۔ ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے میں مصروف رہا ۔ہم نے دشمنوں کی پلانگ اور منصوبوں کی طرف دھیان نہیں دیا ہم آپس میں بٹتے رہے اور تقسیم ہوتے رہے ایک جماعت اور جمعیت میں کئی کئی جماعتیں اور جمعتیں اختلاف کرکے بنتی رہیں۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔

لیکن صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے اب بھی ہمارے پاس موقع ہے کل ہم نے موجودہ حالات میں ہم کیا حکمت عملی اپنائیں؟ اس سلسلے میں کچھ رہنما اصول اور لائحہ عمل کو پیش کیا تھا چند صورتیں اور شکلیں آج بھی ہدیئہ قارئین کرتے ہیں ۔

*ملت اسلامیہ ہندیہ کو اس نازک اور مشکل دور میں اگر وہ اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو وہی راستے اختیار کرنے ہوں گے جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا ۔ ان راستوں میں سے ایک راستہ یہ بھی ہے کے بڑے دشمنوں کے لئے ہدایت کی خاص طور پر دعائیں کی جائیں بعثت مبارکہ کے بعد ابتدائی دور میں دو شخص اسلام کے سخت دشمن تھے ۔ جن کا دبدبہ پورے علاقہ میں تھا ۔ ایک ابو جہل عمرو بن ہشام اور دوسرے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بارگاہ رب العالمین میں یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! ان دونوں میں سے جو آپ کو زیادہ پسند ہو اس کو اسلام کی دولت سے نواز کر دین کی عزت کا سامان فراہم فرما دیں ۔ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشنبہ (سوموار ) کے دن ظہر کی نماز کے بعد کرنی شروع کی تھی ہر روز اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے رہے تاکہ آں کہ تیسرے دن یعنی بدھ کے روز ظہر کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا قبول ہوگئ اور آپ حیرت انگیز طور پر مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔ جس کے بعد پورے مکہ میں مسلمانوں کی ایک دھاک قائم ہوگئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے اور اس میں ہمارے لئے یہ اسوہ ہے کہ ہم دین کے کٹر دشمنوں کے حق میں اولا یہ دعاء خیر کرتے رہیں کہ اللہ تعالی جو دلوں کو پھیرنے والا ہے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے ۔ اگر ان میں چند بھی راہ راست پر آجائیں تو دین کو بڑی تقویت مل سکتی ہے اور اللہ تعالی کی قدرت سے یہ کوئی مستبعد بھی نہیں وہ چاہے تو منٹوں میں دل پھیر دے اسلامی تاریخ میں سینکڑوں ایسے واقعات موجود ہیں ۔ لیکن ہم اس اسوہ پر بہت کم عمل کرتے ہیں ہم بدعائیں زیادہ دیتے ہیں ۔ دشمنوں کی ہلاکت کی باتیں زیادہ کرتے ہیں ہدایت کے لئے دعائیں کم کرتے ہیں موجودہ حالات میں اس کے لئے ہمیں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے* ۔

*صبر و استقامت اور عفو و درگزر* کا ہم اپنے کو عادی بنائیں اعلی اخلاق کا مظاہرہ کریں لین دین میں سچائ اور راست بازی سے ان کو اپنا قائل اور گرویدہ بنائیں ۔ ہمارا عفو و درگزر اور صبر و تحمل بزدلی اور کسی خوف کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس جذبہ سے ہو کہ دعوت کی راہ میں یہ پیارے آقا کا اسوہ اور طریقہ رہا ہے ۔ ۸/ ہجری میں مکہ معظمہ فتح ہوا مکہ والوں نے پیغمبر علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو اذیتیں پہنچائ تھیں ان کا بھرپور اور عبرتناک بدلہ لینے کا یہ اچھا موقع تھا۔ اسی لیے بعض پرجوش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے یہ جملہ بھی نکل گیا تھا کہ آج تو گوشت کاٹنے کا دن ہے لیکن پیغمبر علیہ السلام نے اس دن انتقام کی حکمت عملی نہیں اپنائ بلکہ رحمت اور عفو و درگزر کی پالیسی اختیار کی اور اعلان فرمایا آج کعبہ کو عزت کا لباس پہنایا جائے گا ۔ پھر اعلانات کئے کہ جو فلاں کے گھر میں آجائے وہ امن میں ہے جو کعبہ کے صحن میں چھپ جائے ان کو امان جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کو امن وغیرہ وغیرہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کا اثر یہ ہوا کہ مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جن کی پوری زندگی اسلام دشمنی میں گزری تھی ان کے دل موم ہوگئے اور انہوں نے اسلام سے مشرف ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی غلامی کو برضا و رغبت قبول کر لیا ۔

*نوٹ باقی کل کے پیغام میں ملاحظہ فرمائیں*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔