آج گیارہ نومبر ہے،مولانا ابو الکلام آزاد رح کی ۱۱۳ہویں یوم پیدائش ہے ، مولانا آزاد رح کی پیدائش ۱۸۸۸ء میں ہوئی تھی ۔ نئی نسل اور نوجوانوں کو خاص طور پر ان کی زندگی اور کارنامے سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریر دو قسطوں میں ہے امید کہ ملاحظہ فرمائیں گے کیونکہ یہ تحریر ہمیں مہمیز لگائے گی اور بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملے گا ۔ م ق ن
*مولانا ابو الکلام آزاد رح ایک جامع اور ہشت پہل شخصیت*
(۱ )
*محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*نیاز فتح پوری* (سابق مدیر ماہ نامہ *نگار* ) نے *امام الھند مولانا ابو الکلام آزاد رح* کی ہمہ جہت صلاحیت اور ان کے جوہر ذاتی پر تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ *مولانا آزاد رح اگر عربی شاعری کی طرف توجہ کرتے تو متبنی و بدیع الزماں ہمدانی ہوتے،اگر محض دینی و مذہبی اصلاح کو اپنا شعار بنا لیتے تو اس عہد کے ابن تیمیہ رح ہوتے ،اگر وہ علوم حکمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے تو ابن رشد اور ابن طفیل جیسے فلسفی ہوتے ،اگر وہ فارسی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوتے تو عرفی و نظیری کی صف میں نظر آتے ،اگر وہ تصوف و اصلاح کی طرف مائل ہوتے تو غزالی رح اور رومی سے کم نہ ہوتے* ۔
*مولانا ابو الکلام آزاد رح* انیسویں صدی کے نصف آخر کی پیداوار تھے اور بیسویں صدی کے نصف اول پر چھائے رہے ۔ *مولانا آزاد رح* نے دو صدیوں کے قدیم و جدید گہواروں میں پروش پائ ،اگر قدیم نے ان کو سنوارا تو جدید نے انہیں نکھارا، ان کے ذھن میں حدت ہی نہیں جدت بھی تھی ۔ وہ قدیم صالح اور جدید نافع کے سنگم اور حسین امتزاج تھے۔ ان کے خیالات تروتازہ اور شاداب تھے ۔ افکار میں اعتدال اور وسعت تھی ۔ ہندو مسلم ایکتا کے داعی اور علمبردار تھے۔ ساتھ ہی افکار میں مذھب ،فلسفہ اور سماجی علوم کا ایک سنگم بن گیا تھا ۔
*مولانا آزاد رح* نے اپنی تحریر و تقریر اور دانشوارانہ قیادت کے ذریعہ *ملت اسلامیہ* اور *ہندوستانی عوام* کی جو خدمت کی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے آپ نے ہندوستان کے خوابیدہ معاشرہ میں اور بے جان سوسائٹی میں زندگی کی تڑپ پیدا کردی ۔ آپ کی علمی و عملی ،صحافتی و سیاسی جدوجہد نے ہندوستانی قوم کو نئی ڈگر اور شاہراہ پر لاکھڑا کیا۔ ہم شاعر کی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ
*جو تھے غفلت میں غرق ان کو صدا دیتا ہوا اٹھا*
*کہ وہ غیرت کے شعلوں میں ہوا دیتا ہوا اٹھا*
*جو تھے جذبات پژمردہ جوانی بخش دی ان کو*
*جو تھے ٹھہرے ہوئے دھارے روانی بخش دی انکو*
*ہندوستان* اور *برصغیر* ہی نہیں بلکہ *عالم اسلام* میں ان کی شہرت ایک عالم ،مفسر، مدبر، مفکر، دانشور، سیاست دان اور اسکالر کے حیثیت سے تھی *مولانا آزاد رح* کے علمی اور تعلیمی نقطئہ نظر کو واضح کرنے کے لئے ان کی تحریر کا یہ ایک اقتباس کافی ہے- *مولانا آزاد رح* لکھتے ہیں :
*زمانہ بدل چکا ہے تعلیم بدل گئی ہے ،کوئ تعلیم کامیاب نہیں ہوسکتی،اگر وہ وقت اور زندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو،زمانہ اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہا،اور آپ وہیں بیٹھے رہے،آپ ان مدرسوں میں بیھٹے رہے ،جن مدرسوں میں آپ نے آج سے پانچ سو برس پہلے قدم رکھا تھا، اس پانچ سو برس کے اندر دنیا بیٹھی نہیں رہی، زمانہ بھی چلتا رہا ،وہ بھی پانچ سو برس کی مسافت طے کرچکا ہے ۔ اور آپ وہیں کے وہیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آج جو تعلیم ان مدرسوں میں آپ دے رہے ہیں، وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں، ہرگز نہیں جوڑ سکتے ،نتیجہ یہ ہے کہ زمانے میں اور آپ کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی ہوگئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم جس سے ملک کے بہترین مدبر،ملک کے بہترین منتظم اور ملک کے بہترین عہدے دار پیدا ہوتے تھے ۔ آج انہیں مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ بالکل نکمے ہیں، اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور اس میں کوئ شبہ نہیں کہ ہم زمانے سے دور ہوگئے ہیں، آپ نے اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانے کے ساتھ جوڑ سکیں ،زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا،اور آپ وہیں رہے جہاں تھے ،نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کا زمانہ کی مانگوں سے کوئ رشتہ باقی نہیں رہا اور زمانے نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کر دیا ،زمانہ نے آپ کو بیکار سمجھا ہے ۔ ہم کو ماننا چاہیے کہ ماضی میں ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دیتے ،مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا*
( *قافلئہ علم و ادب ص: ۱۱۵/ از ڈاکٹر مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی*)
*مولانا ابو الکلام آزاد رح* صرف کسی سیاسی لیڈر اور محض ایک قائد اور رہبر کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ ایک روشن اور تاباں ستارہ تھا جو آسمان ہند پر اس لئے طلوع ہوا تھا کہ صبح آزادی کی آمد کا اعلان کرے ،جشن آزادی کی نوید سنائے،اور قوم و ملت کو یہ بشارت اور پیغام و پیام دے کہ زندگی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے ۔ اب جو دن طلوع ہوگا اور اب جو سورج اپنی شمسی کرنوں کو بکھرے گا وہ مظلموں اور ستم رسیدہ طبقہ کی بالادستی اور ظالموں، جابروں کی شکست و پستی اور انحطاط و تنزلی کا ہوگا ، *مولانا آزاد رح* ایک شعلئہ جوالہ تھے جس نے ظلمتوں کے دامن کو تار تار کردیا تھا ۔ *مولانا آزاد رح* کے قلم نے نصف صدی تک ایسی آگ برسائ کی انگریزوں کی توپ و تفنگ کو تودئہ خاکستر میں بدل دیا، آپ کی زبان نے اپنی تقریر اور زور خطاب سے وہ سیل بے اماں بپا کیا کہ انگریزوں و سامراجوں کے سفینہ کا دامن ساحل تک پہنچنا دوبھر کردیا ۔
*وطن کے چہرئہ تاباں پہ جب رنگ جلال آیا*
*پیام انقلاب قوم لے کر الہلال آیا*
*کہا اس نے وطن والوں سے اب ہوشیار ہوجاو*
*نیا سورج ابھرنے والا ہے بیدار ہو جاو*
*مگر پیغام اسکے ساتھ ہی یہ بھی دیا اس نے*
*برائے اتحاد باہمی یوں بھی کہا اس نے*
*اگر کوئ فرشتہ آسمانوں سے اتر آئے*
*قطب مینار سے پھر وہ اگر اعلان یہ فرمائے*
*کہ آزادی ابھی دے دوں تمہیں ہندوستاں والو*
*اگر تم اتحاد باہمی کو ختم کر ڈالو*
*تو میں یہ شرط ٹھکرا کر بربادی نہیں لوں گا*
*جو کھو کر اتحاد آئے وہ آزادی نہیں لوں گا*
*نوٹ :- باقی دوسری قسط میں*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔