مولانا سید محمد علی رامپوری رحمۃاللہ علیہ

تذکرہ علماء ربانین {مولانا سید محمد علی رامپوری رحمۃاللہ علیہ}

سلسلہ قسط ❷

محرم ؁۱۲۴۵ میں آپ مدراس پہنچے اور مولوی عبدالعلی صاحب بحرالعلوم کے صاحبزادہ مولوی عبدالرب صاحب کے مدرسہ میں فروکش ہوئے اور ترویج حق اور اشاعت توحید وسنت کا کام شروع کیا چند دنوں میں شہر میں آپ کے وعظ کی دھوم مچ گئی اور ہزارہا آدمی تائب اور آپ کی بیعت میں داخل ہونے لگے نواب محمد خان عالم خاں بہادر تہور،جنگ مدراس کے ایک فاضل رئیس تھے، وہ ایک روز دو سو آدمیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑی دیر گفتگو کے بعد آپ نے بیعت کر لی، نواب صاحب نہایت شوقین رنگین مزاج آزاد طبیعت رئیس تھے، موسیقی اور باجوں کا خاص ذوق تھا ایک کمرہ صرف باجوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے لیے ایک عملہ نوکر تھا، بیعت ہونے کے بعد مولانا کے کچھ فرمائے بغیر تمام باجوں کو توڑوادیا اور تمام منہیات شرعی سے توبہ کی، مدراس کے شوقین رئیسوں کو اطلاع ہوئی تو ہزاروں روپیہ دے کر خریدنا چاہا مگر آپ نے " آنچہ برخود نہ پسندی بر دیگراں مپسند" کے مطابق ان کو کسی کے استعمال کے قابل نہ رکھا بیعت کے بعد آپ کی کیفیت اور آپ کے گھر کا کارخانہ بدل گیا، بجائے شراب موسیقی کے ہر وقت قرآن وحدیث کا مطالعہ اور وعظ و نصیحت کا مشغلہ تھا، گھر کے مرد عورت چھوٹے بڑے سب مولانا کے مرید ہو گئے تھے صرف آپ کی والدہ باقی تھیں جو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد سے تھیں وہ بھی خواب میں حضرت شیخ کی ہدایت کے مطابق مولانا کی بیعت سے مشرف ہوئیں، آپ کی صاحبزادی بہو بیگم، نواب صاحب مدراس، نواب عظیم جاہ بہادر کے عقد میں تھیں اور والد کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں اور مردانہ استقامت رکھتی تھیں، نواب صاحب کی کوشش کے باوجود ذرہ برابر بھی اپنے عقائد صحیحہ سے نہ ہٹیں، نواب صاحب نے طلاق کی دھمکی دی تو خان عالم خان صاحب نے فرمایا کہ آپ طلاق دے دیں گے تو میں آپ ہی کے اصطبل کے مسلمان سائیس سے اس کا نکاح کر دوں گا، بہو بیگم نے نواب صاحب کو جواب دیا اگرچہ میں آپ کی کنیز اور آپ میرے آقا ہے لیکن خدا کے سامنے ہر ایک کو اپنا اپنا جواب دینا پڑے گا اس لئے میں آپ کی وجہ سے اپنی آخرت برباد نہیں کرسکتی۔ (جاری) قسط ③ پڑھیں

https://t.me/impoinfo

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔