مہنگی شادیاں بھی ارتداد کی وجہ ہے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1164)
*مہنگی شادیاں بھی ارتداد کی وجہ ہے-*

*عجیب بات ہے کہ اسلام نے جن چیزوں کو سادہ، سہل اور آسان بنایا تھا اسے اس کے ماننے والوں نے خود مشکل، پرتکلف اور بوجھ بنادیا، دین الہی نے تو فطرت کی رہنمائی کی تھی اور یہی اس کے شایانِ شان ہے، انہیں یہ بھی سمجھایا گیا تھا کہ خواہشات کی تکمیل بھی کیسے کی جائے اور کیسے شیطانی جھانسوں سے بچا جائے؛ بالخصوص فطری ضرورت کیلئے اسلام نے انسانوں کو حد درجہ سادگی کی تلقین کی تھی، زمانہ جاہلیت کی بےاعتدالیوں اور افراط و تفریط سے روکا تھا، اگرچہ تحدیث نعمت کیلئے کچھ رنگ و روغن کرلیا جاتا ہے لیکن اگر اسراف پایا جائے تو اسے تحديث نعمت نہیں؛ بلکہ تحدیث خباثت سے تعبیر کرنا چاہئے، جس سے اللہ تعالی بھی پسند نہیں کرتا، انہیں چیزوں میں ایک شادی بیاہ بھی ہے، اسلام نے شادی کیلئے لڑکے کے ذمہ ایک سادہ ولیمہ اور متوسط مہر کے سوا کسی پر کوئی چیز عائد نہیں کی ہے، ایجاب و قبول ہوجائے اور جوڑے اللہ کا نام لیتے ہوئے اس کی رضا جوئی کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کریں، مگر جدید دور ہو یا پھر قدیم دور تقریباً یہ بات مشترک پائی جاتی ہے؛ کہ شادی کی تقریب کو اپنی حیثیت و دولت کی نمائش اور عزت وتکریم کی بلندی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا، خاص طور پر اگر موجودہ زمانہ کی بات کی جائے تو اس نے سوچ سے بڑھ کر سنگینی اختیار کرلی ہے، سماج بکھرا جاتا ہے، بچیاں اپنی عمر سے تجاوز کر رہی ہیں، کم آمدنی اور متسوط طبقہ کے لوگ اپنی بچیوں کو منحوس سمجھنے لگے ہیں، اس کی شادی، جہیز اور خرچ کے بوجھ تلے دب کر خود کشی کر رہے ہیں، نتیجتاً معاشرے میں فحاشی اور عریانیت کا تماشہ عام ہورہا ہے، کہتے ہیں کہ اگر پانی کو راہ نہ دی جائے تو اپنی راہ خود بنالیتا ہے، اسی طرح فطرت سے دشمنی خود دشواری کا باعث بن جاتی ہے، چنانچہ آج یہ نوبت ہے کہ مسلم بچیاں بھی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ گھر بسالینے کو عیب نہیں جانتیں، ان کے والدین بھی غالباً اسی لئے خموشی اختیار کرلیتے ہیں؛ کہ آخر سر سے ایک بوجھ تو اترا، ممکن ہے کہ وہ دینداری اور اسلامیت سے دور ہوں؛ ایسے میں مادیت کی آگ کے سامنے ان کی کیا چلے گی، اس طرح کے کئی واقعات ہمارے سماج میں پائے جاتے ہیں جن سے سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے؛ لیکن کیا کیجئے! ہمارے ہاتھوں کا بویا ہم ہی تو کاٹیں گے، استاد گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے ارتداد کیلئے مہنگی شادیوں کو ایک سبب قرار دیا ہے اور آپ لکھتے ہیں:*
*"شادی میں فضول خرچی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ اب عام لوگوں کی شادیاں پرانے نوابوں اور راجاؤں کی شادیوں میں ہونے والے تزک و احتشام کو بھی مات کررہی ہیں، دولت مند طبقہ نے اس کو اپنی مالی فراوانی کے مظاہرہ کا ذریعہ بنالیا ہے، درمیانی طبقہ اس کی وجہ سے بعض اوقات درودیوار تک بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور کمزور طبقہ اگر دین سے بے بہرہ ہو تو چاہتا ہے؛ کہ کسی طرح اپنے جگر گوشہ کے بوجھ سے وہ نجات پاجائے، خواہ وہ کسی مسلمان کے گھر میں جائے یا غیر مسلم کے، جب تک معاشرہ کے دولت مند لوگ سادگی اختیار نہ کریں گے، اس صورت حال میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسے قدرتی آفات کے مواقع پر مدد اور بچاؤ کی مہم شروع کی جاتی ہے، اسی طرح نکاح میں سادگی پیدا کرنے کے لئے علماء و مشائخ، سماجی وسیاسی رہنما، صحافی اور اہل علم و دانش مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے کارکنان ایک مہم چلائیں اور گھر گھر دستک دے کر انہیں سادہ طریقہ پر تقریب نکاح انجام دینے کی دعوت دیں۔"(شمع فروزاں: ٢٥/١٢/٢٠٢٠) بلاشبہ یہ ظاہر پرستی، بناوٹی پن اور تصنع ہمیں رسوائی کی گلیاروں میں بھٹکنے پر مجبور کردے گی، سماج کے تانے بانے کو توڑ کر رکھ دے گی، اگر یہی رویہ رہا تو ممکن ہے کہ مسلم بچیاں ہماری پگڑیاں اچھالتی رہیں اور ہم منہ تکتے رہ جائیں، اخبار و رسائل اور برقی خبر رساں اداروں کے ذریعے مسلم بچیوں کی عزت تار تار ہونے کی خبریں سنیں، اسلام کی ردائے رحمت کو چاک کرنے روح فرساں واقعات ہمارے کانوں میں پڑیں اور ہم یونہی منجمد ہوئے رہ جائیں، کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ فوری طور پر یا کہئے کہ ایمرجنسی کے مثل ایک تحریک چلائی جائے اور امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کو باور کرایا جائے؛ کہ شادی کی تقریب آسان اور سہل رکھو، اسلامی تعلیمات کو سینے سے لگاؤ، سماج میں رسوائی کا باعث نہ بنو، سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرو اسی میں تمہاری اور ہوری امت کی خیر ہے، اس دور فتن میں یہی نجات کی ضمانت ہے.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
20/01/2021

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔