شدت پسندی، درشت مزاجی اور جھگڑالو، ذہنیت یہ معیوب اور منفی اوصاف ہیں۔ اس ذہنیت اور اوصاف کے لوگ سماج کے لیے ناسور ہیں، ایسے لوگ سوسائٹی اور سماج کے لیے آئے دن مسئلہ کھڑا کرتے رہتے ہیں، خود بھی بے سکون اور بے چین رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کئے رہتے ہیں، چونکہ ایسے لوگوں میں مروت، شرافت، وسعت، بلند اخلاقی اور اعلی ظرفی نہیں پائی جاتی، اس لیے تھوڑی تھوڑی بات پر جھگڑتے رہتے ہیں، باہمی نزاع کرتے ہیں اور پرسکون ماحول کو بے سکون ماحول میں تبدیل کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگ کسی ادارے، کسی کمپنی اور کسی شعبہ میں مستقل مزاجی سے کام نہیں کرتے، آئے دن ان کا بوس سے اور ذمہ داران سے تکرار اور بحث و مباحثہ اور قیل و قال ہوتے رہتا ہے، ایسے لوگ ایک جگہ مستقل مزاجی سے کام نہیں کرپاتے، باوجودیکہ ان کے اندر اچھی صلاحیت اور اعلی استعداد ہوتی ہے، وہ اپنے فن اور موضوع کے ماہر ہوتے ہیں۔ ہمارے کتنے ہی معاصر دوست و احباب ہیں جن کے اندر مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے اور اپنی شدت پسندی و درشت مزاجی اور جھگڑالو ذہنیت کی وجہ سے درجنوں مدرسے بدل چکے ہیں، اور بار بار نئی جگہ بدلنے سے وہ اپنا مقام و اعتبار کھو چکے ہیں۔
حدیث شریف میں ایسے لوگوں کو ناپسند قرار دیا گیا ہے اور یہ مزاج لوگوں کے جنت میں داخلہ میں رکاوٹ ہے۔ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
*لا یدخل الجنة الجواظ الجعظری*(شرح السنة)
جنت میں اجڈ سخت گو شخص داخل نہ ہوگا۔
جھگڑالو ذہنیت والے کے بارے میں فرمایا:ابغض الرجال الالد الخصم۔( بخاری و مسلم) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا جھگڑالو ہو، ایک اور موقع
پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تیرے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا ہی رہے۔ (مسلم)
اس ذہنیت کا ادمی کسی بھی سماج اور معاشرہ کے لیے مصیبت ہوتا ہے جس کو بس جھگڑا کرنے اور قیل و قال اور بحث و مباحثہ میں لطف و مزہ آتا ہو، جو ہر وقت بحث و تکرار اور جھگڑنے پر آمادہ رہتا ہو، اس ذہنیت والا شخص کبھی چین سے نہیں بیٹھتا، وہ ایک طرح سے اپنا ذھنی توازن کھو چکا ہوتا ہے، ایسے شحص سے بھلائی کی توقع اور امید رکھنا فضول ہے، ایسا کم ظرف شخص خدا کی نگاہ میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار اور مبغوض ہوتا ہے۔ ایسا شخص خواہ وہ کسی گناہ میں ملوث ہو یا نہ ہو خدا کی نگاہ میں گنہگار قرار پانے کے لیے یہی ایک برائی بہت ہے کہ وہ جھگڑالو قسم کا آدمی ہے۔۔۔۔
عربی زبان میں جواظ کے معنی اجڈ کے ہیں، اس کے معنی بعض اہل علم نے متکبر کے بھی لیے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواظ وہ ہے جو مال جمع کرے اور سائل کو نہ دے۔ اور جعظری کے معنی، شدت پسند،سخت گو اور درشت مزاج کے ہیں۔ علماء نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے : *کہ سختی و درشتی خواہ مزاج میں ہو یا رویہ میں، یہ ایک نہایت ناپسندیدہ چیز ہے۔ ناپسندیدہ اور مبغوض شئے کا جنت سے کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام تو دلوں کو اطمنان اور روح کو آرام دینے آیا ہے،۔ وہ ذہنوں کو کشادہ کرتا ہے، اور دلوں کو زندگی و تازگی بخشتا ہے، وہ بے حوصلہ لوگوں کو حوصلہ عطا کرتا ہے، وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے لیے امید بن کر ظاہر ہوا ہے۔ وہ لوگوں کو ان کی فلاح و کامرانی کی راہ پر لگانا چاہتا ہے۔ اسلام جس کا پیغام محبت ہو، جو اتحاد و اتفاق اور مساوات و عدل کی تعلیم دیتا ہو، جو اتنا کشادہ داماں ہو کہ ساری انسانیت کو ایک کنبہ قرار دیتا ہو۔ عفو و درگزر سے کام لینے کی تاکید کرتا ہو جو بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم دیتا ہو وہ سخت گیری کو کیسے پسند کرسکتا ہے، بے جا سختی کسی بھی معاملہ میں اسے پسند نہیں، سخت گیری اور شدت پسندی نہ دین کے معاملہ میں صحیح ہے اور نہ دنیوی امور میں صحیح ہوسکتی ہے۔ وہ لوگ اسلام کے مزاج سے قطعا ناآشنا ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر طوفان کھڑا کر دیتے ہیں، اسلام جس تہذیب اور نظام فکر و عمل کا داعی اور علمبردار ہے اس کی نمائندگی وہ شخص ہرگز نہیں کرسکتا جو بدخو، سخت مزاج، اور سخت دل ہو۔ پھر جسے نہ تو اسلام کی نمائندگی کی فکر ہے اور نہ وہ ذاتی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی شخصیت کی تعمیر کی فکر رکھتا ہے، اس کو آخر کس طرح یہ خوش خبری سنائی جائے کہ تم چاہے جیسے ہو تمہارے لئے جنت میں اعلی قسم کی رہائش گاہ کا الاٹمنٹ ہوچکا ہے*۔ ( مستفاد کلام نبوت، ۲/۴۸۸)