*انسان آخر انسان ہے، امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا مجموعہ ہے، ایک مختصر سی زندگی میں سب کچھ پالینا یا پھر اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار لینا ناممکن ہے، دنیا میں کچھ اس سے اعلیٰ کچھ کمتر اور کچھ ہمسر تو ضرور ہوں گے، مگر ان کی بھی بھرپائی کی جاسکتی ہے، سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے؛ کہ نیک آرزوؤں کا اظہار کر کے ان میں شامل ہوا جائے، امام بخاری رحمہ اللہ نے باقاعدہ ایک باب باندھا ہے_"کتاب نیک ترین آرزوؤں کے جائز ہونے کے بیان میں"__ اس کے تحت آپ نے متعدد روایتیں نقل کی ہیں، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک تمنائیں کی ہیں، چند روایات ملاحظہ کیجئے!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں...." (٧٢٢٧)_ "اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں پسند کرتا؛ کہ اگر ان کے لینے والے مل جائیں تو تین دن گزرنے سے پہلے ہی میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی نہ بچے، سوا اس کے جسے میں اپنے اوپر قرض کی ادائیگی کیلئے روک لوں"- (٧٢٢٨) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "رشک صرف دو شخصوں پر ہو سکتا ہے ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا رہتا ہے اور اس پر ( سننے والا ) کہے؛ کہ اگر مجھے بھی اس کا ایسا ہی علم ہوتا جیسا کہ اس شخص کو دیا گیا ہے، تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا کہ یہ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو ( دیکھنے والا ) کہے کہ اگر مجھے بھی اتنا دیا جاتا، جیسا اسے دیا گیا ہے تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا کہ یہ کر رہا ہے۔" (٧٢٣٢)، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تمنا ظاہر کی کہ: "اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک کرنا واجب قرار دیتا۔" (٧٢٤٠)، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے؛ کہ بناء کعبہ اپنی اصل ہیئت میں آجائے، یعنی حطیم کا حصہ بھی شامل کرلیا جائے، مگر اس موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اگر تمہاری قوم (قریش) کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے خوف نہ ہوتا؛ کہ ان کے دلوں میں اس سے انکار پیدا ہو گا تو میں حطیم کو بھی خانہ کعبہ میں شامل کر دیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے برابر کر دیتا۔" (٧٢٤٣)، آپ نے تو یہاں تک فرمایا: "اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔"(٧٢٤٥)*
*مگر غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ تمنا صرف جائز امور کی ہو، ناجائز معاملے میں امیدیں پالنا درست نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے، اس کی رضا کے خلاف ہے، یہ گویا تقدیر و قضا سے بھاگنے کے بھی مترادف ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ناجائز امر کی تمنا کبھی نہ پالی؛ بلکہ امت اسلامیہ میں کسی فرد کیلئے اس کا جواز بھی نہ چھوڑا، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات کو بھی جمع کیا ہے، ایک مقام یہ روایت منقول ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص تم میں سے موت کی آرزو نہ کرے، اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے نیکی میں اور زیادہ ہو اور اگر برا ہے، تو ممکن ہے اس سے توبہ کر لے"_ (٧٢٣٥) دراصل دنیا میں انسان کیلئے تمام پریشانی کی انتہا موت ہی نظر آتی ہے، اسی لئے اگر کوئی حوادث زمانہ کا شکار ہو اور وہ خدا عزوجل کی عظمت و جلالت کا کمزور عقیدہ رکھتا ہو تو موت کو ہی گلے لگا کر قصہ تمام کرتا ہے، مگر یہ نظام الہی سے بھاگنا ہے، چنانچہ قیس کہتے ہیں: ہم خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی عبادت کیلئے حاضر ہوئے۔ انہوں نے سات داغ لگوائے تھے، پھر انہوں نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا_ (٧٢٣٤)،ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ کہ تم میں کون مجھ جیسا ہے، میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے، لیکن جب لوگ نہ مانے تو آپ نے ایک دن کے ساتھ دوسرا دن ملا کر ( وصال کا ) روزہ رکھا، پھر لوگوں نے (عید کا ) چاند دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اگر چاند نہ ہوتا تو میں اور وصال کرتا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لئے فرمایا تاکہ ان کی تنبیہ جاسکے_ (٧٢٤٢) بہر حال یہ اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ نیک آرزو کی جائے اور بری تمناؤں سے بھی پرہیز کیا جائے.*