واقعی احتجاج اسے کہتے ہیں

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1116)
*واقعی احتجاج اسے کہتے ہیں-*

*کسانوں کا احتجاج دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے کہ صحیح معنوں میں احتجاج کیا ہوتا ہے اور جمہوریت میں کس طرح عوام پوری آزادی کے ساتھ اپنا حق چھین سکتی ہے، پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی کے کسان اگرچہ اس میں پیش پیش ہیں اور تقریباً پانچ سو جماعتیں بھی شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں؛ لیکن ان سب میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ وہ نہ صرف جوش وجنون، ولولہ اور جذبات سے مضبوط ہیں بلکہ منصوبہ بندی اور لائحہ عمل میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں ہے، سڑکوں پر چلنے، رفتار قائم رکھنے سے لیکر کھان پان اور بات چیت غرض ہر چیز نظم و ضبط کا اعلی نمونہ دیکھنے کو مل رہا ہے، چنانچہ ٣٢ /جماعتوں کے افراد اگر حکومتی سطح پر بات کریں گے تو مجال نہیں ہے کہ کوئی اور کچھ بول دے، یا ان میں سے کوئی ایک فرد چھوڑ دیا جائے، حد تو یہ ہے کہ عام لوگوں سے جب کچھ پوچھا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے قائد سے پوچھئے! وہ نام و نمود سے بعید تر ہو کر صرف اپنے مقصد کی طرف گامزن ہیں، ملک میں زہر افشانی کی سب سے فیکٹری اور ان کی تحریک کو کمزور کرنے والی گودی میڈیا کا بھی علاج انہوں نے بہت خوبی کے ساتھ نکالا ہے، جنہوں نے اس تحریک کو کانگریسی، خالصتانی اور بیرونی سرمایہ کاری کا اثر بتا کر قدم قدم پر حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی اور اپنے کسی پرائم ٹائم سرسری جگہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہ دی، ایسے میں انہوں نے تمام گودی میڈیا کا بائیکاٹ کردیا ہے؛ بلکہ انہیں دیکھتے ہی اس طرح نعرہ بازی کرتے ہیں کہ وہ سر جھکائے الٹے پیر لوٹ جاتے ہیں، کسانوں کا یہ احتجاج پچھلے کئی مہینوں سے ہے، انہوں نے ریلوے کی تمام سہولیات معطل کردی تھیں، اس درمیان وہ اسی پر بس کر کے نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے مجوزہ قانون کا مطالعہ کیا، اس کے ضواحی و نواحی پر غور کیا اور تمام امکانات پر تیاری کی، پھر ملک کے مختلف علاقوں اور تحریکوں سے بات چیت جاری رکھی، سیاسی پلیٹ فارم پر ہو یا پھر سماجی کارکن اور شخصیات کی سطح پر ہو ہر جگہ اپنے نمائندے بٹھائے اورپھر حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا حتمی مطالبہ شروع کیا، جب دیکھا کہ سرکار اپنے آپ میں مگن ہے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو بلا کسی دیگر تعاون کے انہوں نے اپنے ہی ٹریکٹر، گاڑیاں اور لاریاں لیکر دہلی کوچ کرو کا اعلان کردیا.*
*ذرا سوچئے کہ وہ کتنی زور اور قوت کے ساتھ بڑھ رہے تھے کہ دہلی پہنچنے والی تمام سرحدیں بلاک کردی گئیں، بلکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دس گز سڑکیں کھود کر ایک ہالہ بنایا گیا کہ کسان کسی آن انہیں نہ عبور کرسکیں اور ناہی وہ دہلی پہنچ سکیں، مگر کسان خون پسینے اور مٹی سے اناج اگانے والے اور بنجر کو سبز کردینے والے بھلا کہاں اور کس سے رکنے والے تھے؛ باطل قوت بازو میں آنسو گیس اور واٹرکینن کا استعمال کیا، پھر یہ بھی ہوا کہ جے جوان جے کسان والے ملک میں جوان کو کسان کے خلاف کھڑا کردیا گیا اور انہیں ڈنڈے برسانے پر مجبور کردیا گیا، اتنا سب کچھ ہونے بعد کے بھی ان کے قدم میں ہچکچاہٹ پیدا نہ ہوئی، وہ نہ رکے اور نہ جھکے؛ بلکہ بڑھتے ہوئے پھر یہ نعرہ لگا کہ دہلی گھیرو یعنی اگر ہمیں دہلی میں جانے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر دہلی تک کوئی اور بھی نہیں پہچ سکتا، چنانچہ وہ سب راستوں پر ہی بیٹھ گئے، کیمپ لگائے اور لنگر شروع کردیا، ایسا کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی تیاری اور مستعدی کے ساتھ آئے ہیں کہ گویا کشتیاں جلادی ہیں، اب فتح ہوگی یا پھر موت کو ہی گلے لگانا ہے، اسی لئے کھانے پینے کا بندو بست ہے، مہینوں کا راشن پاس میں ہے، یہ دیکھ کر حکومت میں ہلچل پیدا ہوئی، بیرون ملک تک بات پہونچی، منصف مزاج لوگوں نے تعاون کا یقین دلایا، نتیجہ ظاہر تھا کہ سرکار بہت جلد تیار ہوگئی کہ ان سے بات چیت کی جائے، یہاں پر یاد کیجئے کہ شاہین باغ کے ساتھ کیا ہوا تھا؛ بلکہ مسلمانوں کے کسی بھی احتجاج کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ایک بے ہنگمی رہتی ہی ہے ساتھ ہی حکومت کا رویہ یہ رہتا ہے کہ بات تک کرنا پسند نہیں کرتے، مہینوں سڑکوں پر بیٹھے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں، مگر سرکار ایک موقع نہیں دیتی کہ وہ اپنی بات رکھ سکیں، تو وہیں وہ گودی میڈیا کیلئے لقمہ تر بن جاتے ہیں اور مزید کچھ ہونے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کیلئے درد سر ہوجاتے ہیں، مزید یہ کہ ملک میں ہندو مسلم کی وادی وسیع تر ہوجاتی ہے اور سیاستدانوں کیلئے ماحول سازگار ہوکر پوری سیاست کیلئے لطف کا سامان ہوجاتا ہے، اب سرکار کسانوں کیلئے میز لگائے ہوئے ہے، اعلی کمان نے خود لگام تھام رکھی ہے، یقیناً کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلے گا، ممکن ہے کہ تینوں قوانین واپس لئے جائیں گے، جو بھی ہو یہ بھی طے ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں یہ ایک نیا موڑ ثابت ہوگا.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
03/12/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔