وقت کی رفتار

✍️ عاطف شبلی زمانہ پلک جھپکتے نہ جانے کہاں سے کہاں کا سفر طے کر جاتا ہے، وقت کی رفتار شاید برق کے زیادہ سریع السیر ہے، صبح طلوع ہوئ، زوال شمس کا وقت آیا اور پھر سورج کی شعاعوں سے آن کے آن میں آسمان لالہ گوں ہوگیا، شام کا دھندلکا اپنے جلو میں لیلئ شب کو لیے ہوۓ سپیدۂ سحر اور ہر روز کی طرح شمع عالم تاب اور آفتاب کی شعاعوں سے لہلہاتے کھیتوں کی شادابی۔ آفتاب کے طلوع و غروب کا تسلسل اور اور دھوپ چھاؤں کے اسی عالم میں انسان طفل شیر خوار سے شباب اور پھر ضعیف ہو جاتا ہے۔ یوں تو کہنے کو ایک یوم ایک گھڑی بھی بہت معمولی مدت ہے، لیکن درحقیقت قرن و صدیاں بھی اسی طرح ہنگاموں کے گریز پا سایہ میں گزر جاتی ہے۔ بہت ہی کم لوگ وقت کی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور فقط اتنا ہی نہیں ہوتا، والدین اپنے شیر خوار بچوں کے نشونما کو دیکھ کر شاداں و فرحاں ہوتے ہیں، حالانکہ زندگی کا ہر لمحہ ہر پل انسان عالم دنیا سے عالم برزخ کا سفر طے کر رہا ہے اور موت کے قریب سے قریب تر ہوتا چلاجا رہا ہے۔ یہ سان?? جو سبب حیات ہے رفتہ رفتہ موت کی جانب لیے جارہی ہے۔ یہ سالگرہوں کے جشن ہاۓ مسرت اور خوشیوں کے اسٹیج سجانا در اصل موت کے خیرمقدم کے جشن ہیں۔ انسان متنوع حیلہ گری کے دلدل میں پھنسا ہوتا ہے جبکہ اسکو اسکی خبر تک نہیں ہوتی۔ بہرحال! اسے زندگی کا ظہور کہیں یا برزخ کی طرف بڑھتے قدم، قانون فطرت انسان کو بچہ سے جوان اور پھر ضعیف بناتا ہی رہتا ہے، اس کے سہارے نظام کائنات قائم ہے اور تاقیامت یہ قائم رہے گا، فقط۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔