وقف بورڈ سے ملنے والی تنخواہ کی فقہی نوعیت

*⚖سوال و جواب⚖*

*مسئلہ نمبر 1126*

(کتاب الوقف باب المساجد)

*وقف بورڈ سے ملنے والی تنخواہ کی فقہی نوعیت*

*سوال:* دہلی وقف بورڈ اپنے ماتحت مساجد کے امام و مؤذنین کو برابر وظیفہ دیتی چلا آرہا ہے امسال دہلی وقف بورڈ نے دہلی کی ان ۱۵۰۰ مساجد کو جو وقف بورڈ کے تحت نہیں آتی وظیفہ دینے کا اعلان کیا ہے، اور وظیفہ جاری بھی ہوچکا ہے، دہلی کے اکثر امام و مؤذنین اس وظیفہ کو لے بھی رہے ہیں، تو پوچھنا یہ ہے کہ اس کی شرعی اعتبار سے کیا حیثیت ہے؟محقق و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

(المستفتی محمد فیضان قاسمی

امام و خطیب مسجد اقصی چمن پارک مصطفی آباد دہلی ۹۴)

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

*الجواب وباللہ التوفیق*

وقف بورڈ مساجد کے ائمہ و مؤذنین کو جو تنخواہیں دے رہی ہے وہ بورڈ کی جانب سے بطورِ اجرت ہوتی ہے، اس لئے فقہی نوعیت سے یہ اجارہ ہوا، اسے لینا اور دینا دونوں جائز ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*????والدليل على ما قلنا????*

(١) الإجارة عبارة عن العقد على المنافع بعوض هو مال، فتمليك المنافع بعوض إجارة و بغير عوض إعارة. (قواعد الفقه ص ١٠٣ الرسالة الرابعة)

الأجیر الخاص من یستحق الأجر بستلیم النفس وبمضی المدۃ، ولا یشترط العمل في حقہ لاستحقاق الأجر۔ (تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۲۸۱، رقم: ۲۳۰۷۴، ۲۳۰۷۵، المحیط البرہاني، المجلس العلمي ۱۲/ ۳۸، رقم: ۱۴۰۳۶، ہندیۃ، زکریا قدیم ۴/ ۵۰۰، جدید ۴/ ۵۴۳)

الأجیر الخاص: ہو الشخص الذي یستأجر مدۃ معلومۃ لیعمل فیہا، الأجیر المشترک: هو الذي یعمل لأکثر من واحد، فیشترکون جمیعا في نفسہ کالصباغ والخیاط۔ (فقہ السنۃ، دارالکتاب العربي ۳/ ۱۹۳)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/8/1441

رابطہ 9026189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔