وہ سادگی پسند سیاست داں

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(848) *وہ سادگی پسند سیاست داں __!!*

*پنڈت جواہر لال نہرو کو کون نہیں جانتا، وہ ایک امیر گھر کے فرزند تھے، اعلی تعلیم یافتہ، ناز و نعم، آرائش و زیبائش کے مالک تھے، بلکہ ان کے حق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ منہ میں سونے کا چمچا لیکر پیدا ہوئے تھے، موتی لال نہرو ان کے والد تھے، وہ بھی کچھ کم نہ تھے، کسی بھی طرح زندگی کی سہولتوں سے محروم نہ تھے، جہاں ہاتھ رکھ دیں اسے سونا کردیں، دونوں ہی جنگ آزادی کی تحریک میں نہ صرف شامل تھے، بلکہ نہرو جی تو گاندھی جی کے سب سے زیادہ معتمد تھے، ان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے اور سیاسی سانٹھ گانٹھ کی نگرانی کرتے تھے، ایک متحرک، فعال نوجوان، خوب رو اور خوب سیرت شخص، طرز زندگی میں شاہانہ پن، رکھ رکھاؤ میں رجواڑی سوچ کا عکس، زمینداری اور سربلندی کے نشان تھے، مگر آزادی کے بعد لوک سبھا کے انتخابات ہوئے وہ متفقہ طور پر وزیراعظم بنے، ایک ایسا عہدہ سنبھالا جہاں سے ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا، مستقبل کی راہ طے ہونی تھی، استعماریت سے نکل کر جمہوریت کو بروئے کار لانا تھا، آئین بنا کر اسے زمینی حقیقت دینی تھی، یہ ان کی حیثیت ہی تھی کہ ان کے سامنے تمام سیاستدانوں نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے، تب بھی اپوزیشن کو باقی رکھا گیا؛ کیونکہ یہی جمہوریت کی علامت تھی، اور ملک کی ترقی کا راز اسی میں پنہاں تھا، اب ان کے سروکار عوام سے جڑتے گئے، وہ براہ راست عوام کی ضرورتوں سے متعلق تھے.* *مگر وہ اپنے انداز بود وباش سے کہیں سے کہیں بھی عوام سے منسلک نہ ہوپاتے تھے، ہندوستان ایک غریب ملک تھا، جہالت عام تھی، فرقہ وارانہ فسادات جاری تھے، ایسے میں ان کی حیثیت اور بلند ترین طرز زندگی پر بھی اشکالات ہوئے، لوہیا نے بھری لوک سبھا میں ان پر بہت سے الزامات رکھے، اور یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کیسے ہمارا درد سمجھیں گے__؟ آپ کے کپڑے تو باہر سے دھل کر آتے ہیں، آپ کا کھانا سب سے اعلی ہوتا ہے، پہننا سب سے برتر ہوتا ہے، وغیرہ ___ یہ بات تھی کہ انہوں نے اپنی تمام آسائشیں قربان کردیں، اب کھدر کے کپڑے میں ملبوس رہتے، کھانے پینے کا وہ اہتمام بھی ختم ہوگیا، غضب کی تواضع و انکساری اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا ماحول بنایا، اور ملک کی ترقی میں وہ کردار ادا کیا جس پایے تک کوئی دوسرا سیاست دان نہیں پہونچ سکتا، آج تعلیم کا پھیلا ہوا جال انہیں کی دین ہے، اسپتالوں کی بھرمار اور نئی فکر و فن کی شاخیں انہیں کی لگائی ہوئی ہیں، پھر عوام نے بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا اور جب تک وہ زندہ رہے کسی دوسرے سیاست دان کا ستارہ طلوع نہ ہوسکا، ہر کوئی ان کے سامنے پھیکا لگتا، وہ یکتا اور تن تنہا افق سیاست پر سیارہ بن کر چمکتے رہے، اور فاشسٹ طاقتوں کیلئے بھی درد سر بنے رہے، اور اندرون ملک کی بات ہو یا پھر خارجی پالسی کی ہر محاذ پر ملک کو ایک نئی راہ سے ہمکنار کرتے رہے.* *اسی طرح لال بہادر شاستری جی کو آپ جانتے ہوں گے، چھوٹا قد، چھوٹے ڈیل ڈول؛ لیکن بلند حوصلے کا مالک شخص، ایک غریب اور سنجیدہ سیاست دان، اپنی سادگی کیلئے معروف، زندگی بھر ایک کار تک نہ خرید سکے، بلکہ ایک عمدہ جوڑا بھی نہ سلوا سکے، یہ وہ تھے جن کے سامنے پاکستان نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے، جنگ جاری تھی ملک کا خزانہ خالی ہوگیا تھا، ایک دفعہ عوام سے کہہ دیا کہ مدد کیجیے__! تو سبھی نے پیش قدمی کی، یہاں تک کہ عورتوں نے اپنے زیوارت تک انہیں دے دئے، ملک جنگ کی تاب نہ لاکر بہت تشویش کی صورت میں تھا، عوام سے گزارش کی کہ سبھی ملک کی سلامتی اور خیر کیلئے روزہ رکھیں، معلوم ہوا کہ تاریخ میں پہلی دفعہ سیاسی جماعت کے کہنے پر ملک کو درپیش مسائل کیلئے روزے رکھے گئے، اور دنیا نے دیکھا کہ مسلموں کے علاوہ بھی لوگ روزہ رکھتے ہیں، یہی شاستری جی تھے جب ملک میں قحط پڑا تو سبھی کو توجہ دلائی، اور روزے کے ساتھ ساتھ یہ کہنا تھا کہ خوب محنت کیجئے اور اناج پیدا کیجئے، اس بات کو سبھی نے گانٹھ باندھ لیا اور کھیت جوت کر بنجر میں بھی سبزہ اگانے کی ہمت پالی، ملک میں بہترین پیداوار ہوئی، اور اس طرح ایک طرف سرحدی حفاظت تو دوسری طرف اندرونی حفاظت کا نایاب کام انجام دیا.* *واقعی ان جیسا سادہ سیاست دان نہ گزرا تھا، کہتے ہیں کہ بیرون ممالک سے انہیں دعوت آئی، ملک کی نمائندگی کرنا تھا، مگر ان کے پاس کوئی اچھی شیروانی یا صدری نہ تھی، تو نہرو جی کا عطیہ کردہ ایک کپڑے کی آستین چھوٹی کرواکے اور اسے اپنے مطابق بنواکر، پہن کر تشریف لے گئے، یہی کیا ان جیسے اور بھی بہت سے سیاست دان گزر چکے ہیں، جنہوں نے وزیراعظم کی کرسی بھی سنبھالی اور اس سادگی کا ثبوت دیا کہ آزاد ہند کی تاریخ انہیں بھولنے اور ان جیسا پیش کرنے سے قاصر ہے، وہ ہندوستانی تاریخ کے چمکدار ستارے تھے، ابھی قریب کی بات ہے جناب اٹل بہاری واجپائی بھی بہت حد اس فہرست میں شامل تھے، ان کے جسم پر ایک کرتا، دھوتی اور صدری کے سوا بہت کم کسی دوسرے جنس کے لباس پائے گئے، انہوں نے اپنی سادگی کے باوجود ہندوستان کو ایک فکر اور شائینگ انڈیا کا تحفہ دیا، اب آپ غور کیجیے __! ایک طرف یہ اعلی ترین سیاست دان تو دوسری طرف موجودہ وقت کے وزیراعظم ہیں، جو دس لاکھ کا سوٹ پہنتے ہیں، لاکھوں کا قلم رکھتے ہیں، اربوں روپے اپنی طرز زندگی پر خرچ کرتے ہیں، بیرون ملک کا سفر اور اس خرچ کو جان جائیں گے تو عدد بھول جائیں گے، یہی وجہ ہے کہ اب وہ صرف اپنی ساحرانہ پالیسی اور سیاست کی بنیاد پر قائم ہیں، ان کی عزت دو کوڑی کی بھی نہیں ہے، تاریخ ہند میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعظم گزرا ہو جس کی اتنی زیادہ بے عزتی کی گئی ہو___ واقعی سادگی انسان کو رفعت دیتی ہے اور تکبر اسے مٹی میں ملا کر ذلیل و خوار کردیتی ہے.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 10/03/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔