ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ کیبل کنکشن کی سپلائی کرنا

انٹرنیٹ کیبل وغیرہ کا جائز اور ناجائز استعمال دونوں طرح ہے، انٹرنیٹ محض ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لیے مختص نہیں ہے، بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے جائز کام بھی کیے جاسکتے ہیں، اس لیے انٹرنیٹ کیبل کی سپلائی اور شیئر کرنا جائز ہے، اگر اس کا کوئی ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی غلط استعمال کرنے والے پر ہوگا۔برخلاف ٹی وی کیبل کے۔ جب کہ ٹی وی کی غرض ہی ناجائز کے لیے ہے، اس لیے ٹی وی معصیت کا آلہ ہے، لہٰذا ٹی وی کی خرید و فروخت اور کاروبار ہی جائز نہیں ہے۔ جب ٹی وی ہی معصیت کا آلہ ہے۔ ٹی وی کا جائز استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔تو ٹی وی کیبل اس کے لیے معاون ہے ، اور ٹی وی کیبل سپلائی کرنے والا براہِ راست اس گناہ کے کام میں تعاون کرنے والے ہوتا ہے، لہذا ٹی وی کیبل کا کام کرنا، یا اس کی سپلائی کرنا، خواہ وہ کمپنی کرے یا کوئی فرد دوسرے کو دے بہر صورت ناجائز ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔ (مستفاد: فتاوی بنوریہ ???? *البحرالرائق"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155)فتاوی شامی"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه". (4/268)۔*???? ???? *حدیث النبیﷺ* وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُمِائَةٍ وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ وَلَنْ يُغْلَبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث غَرِيب حضرت ابن عباس ؓ ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ بہترین ساتھی چار ہیں ، بہترین دستہ چار سو کا ہے ، بہترین لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کا لشکر قلت کی کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو گا ۔‘‘ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی۔أوکماقال النبی ﷺ۔ *(مشکوةشریف حدیث نمبر ٣٩١٢ )* ناقل✍ہدایت اللہ قاسمی خادم مدرسہ رشیدیہ ڈنگرا،گیا،بہار HIDAYATULLAH TEACHER MADARSA RASHIDIA DANGRA GAYA BIHAR INDIA نــــوٹ:دیگر مسائل کی جانکاری کے لئے رابطہ بھی کرسکتے ہیں CONTACT NO 6206649711 ????????????????????????????????????????????????

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔