پرائیویسی کا خاتمہ اور جنسی نا آسودگی

" *مشترکہ خاندانی نظام، غور و فکر کے چند پہلو* "
(١٨)
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

*پرائیویسی کا خاتمہ اور جنسی نا آسودگی*


مشترکہ خاندانی نظام سے انسان کی رازداری اور پرائیویسی متاثر ہوتی ہے، اس نظام میں پرائیویسی کے ان اصولوں کو اپنانا بہت مشکل ہے، جس کی ہمیں قرآن و حدیث تعلیم دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اے ایمان والو! تمہارے غلام اور وہ لڑکے جو حد بلوغ کو نہیں پہنچے ہوں، تین وقت میں تم سے تخلیہ میں آنے کی اجازت حاصل کریں، ایک نماز فجر سے پہلے، دوسرے ظہر کے وقت جب تم آرام کے لیے کپڑے اتار لیتے ہو، اور عشاء کے بعد، تین وقت تمہارے لئے پردے کے ہیں، ان کے علاوہ نہ تم پر کوئی الزام ہے نہ ہی ان پر۔( النور ۵۸)
مشترکہ خاندانی نظام میں اگر میاں بیوی خوشگوار ازدواجی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنا چاہیں، تو دشوار اور ناممکن ہے، متعدد روایتوں میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ گھریلو کاموں میں ازواج مطہرات کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری )
ایک ساتھ ایک برتن سے غسل جنابت کر لیا کرتے تھے، (بخاری و مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیک بیویوں کو محبت و بے تکلفی سے کنیت سے پکارا کرتے تھے۔۔حضرت عائشہ کو محبت سے حمیرا کہہ کر پکارتے تھے۔۔ ہنسی اور مزاح بھی فرماتے تھے۔۔۔
مولانا سلطان احمد اصلاحی رح اپنی کتاب مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام میں لکھتے ہیں:
"مستقل مکان اور اس سے ملحق سہولیات کا ہر انسان فطری طور پر طلبگار ہوتا ہے، کیونکہ پرائیویسی انسان کی فطرت میں داخل ہے، اگر یہ سہولیات اسے حاصل نہ ہوں تو وہ مسلسل بے چینی کا شکار رہتا ہے، جنسی تسکین کا معاملہ بھی ایک طرح سے نفسیات سے جڑا ہوا ہےاور ہر شادی شدہ شخص یا جوڑے کے لیے مکان کی الگ یونٹ اور علحیدہ رہائش ہی یہ تسکین فراہم کرسکتی ہے"۔۔( مشترکہ خاندانی نظام از سلطان احمد اصلاحی)
وہ مزید لکھتے ہیں:
"پھیلے ہوئے گھر میں اس کی تشنگی اظہر من الشمس ہے، جہاں مرد اپنی بیوی سے بچا کر اور دبا کر جنسی تسکین کا سامان کرسکتا ہے، جب کہ جنس( Sex ) کے سلسلہ میں اسلام کی حساسیت معلوم ہے کہ وہ رشتہ ازدواج سے باہر جنسی تسکین کو حرام اور انتہائی جرم قرار دیتا ہے اور اس کے مرتکب کو سخت ترین سزا کا مستحق و مستوجب ٹہراتا ہے " (مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام از سلطان احمد اصلاحی)
ان روایتوں پر غور کریں کہ اللہ کے رسول ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ غسل جنابت ایک برتن کے پانی سے کرتے تھے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں اسی طرح کی روایتیں آتی ہیں۔ ایسے ہی حالت حیض میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا کسی برتن سے پانی پینا پھر برتن کے اسی جگہ سے اللہ کے رسول ﷺ کا پانی پینا جہاں سے حضرت عائشہ پانی پی چکی ہیں، اسی کیفیت کے ساتھ دونوں کا گوشت کا ٹکڑا کھانا اور اس جیسے دوسرے واقعات کو سامنے رکھیں اور موجودہ طرز معاشرت اور فیملی نظام کو دیکھیں تو اس قسم کی بے تکلف معاشرت کا دور دور تک امکان نظر نہیں آئے گا۔۔
اسی طرح نگاہ کی حفاظت اور عصمت و عفت کے لیے ضروری ہے کہ مرد اپنی خواہش کے مطابق دن و رات کے جس حصہ میں چاہے اپنی ضرورت پوری کرلے ، اسے اس کے لیے آسانی اور اس کے مواقع میسر ہونے چاہیے۔ قرآن مجید نے تو بلیغ اشارہ میں عورت کو مرد کی کھیتی قرار دیا ہے، اور ایسے ہی دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ سورہ روم میں تو سکون و راحت کا ذریعہ قرار دیا گیا اور ان کی آپسی محبت کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔
اللہ کے رسول ﷺ نے تاکید کی کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی خواہش اور ضرورت کے لیے بلائے اور خلوت کی دعوت دے تو فورا آجائے اگر چہ روٹی جل ہی کیوں نہ جائے۔۔ (ترمذی)
کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑ جائے اور اس آدمی کے جذبات انگڑائی لینے لگیں تو اسے اپنی شریک حیات(بیوی ) کے پاس آکر فورا اپنی ضرورت پوری کر لینی چاہیے۔۔
مزید ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت نے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزوں سے بھی منع کیا ہے۔
تو کیا یہ اور اس قسم کے دیگر احکام و ہدایات پر عمل مشترکہ خاندانی نظام کے ازدہام (بھیڑ) میں ممکن ہے، سچ یہ ہے کہ مکان کی علحدہ یونٹ ہی اس کا واحد حل ہے۔۔
مشہور حنفی عالم اور فقیہ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
*لانہ یحتاج الی جماعھا و معاشرتھا فی ای وقت یتفق،ولا یمکن ذلک مع ثالث* (رد المختار ٥/۳۲۱) شوہر کو کسی بھی وقت عورت کے ساتھ رہنے اور ہم بستری کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور کسی تیسرے کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔۔ (مستفاد مشترکہ اور جداگانہ خاندانی نظام)

*نوٹ اس قسط وار اور حساس تحریر کو زیادہ سے زیادہ دوسروں تک پوسٹ کریں، پڑوس کے ممالک میں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں تک بھی اس کو پہنچائیں اور عام کریں*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔