پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہی کیوں

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1114)
*پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہی کیوں ؟*

*ملک میں زیادہ تر لوگ کسان گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ اسے "کرشی پردھنا راشٹر" بھی کہا جاتا ہے، تبھی تو ایک زمانے میں جے جوان اور جے کسان کا نعرہ ملک کا سلوگن بن چکا تھا، بیرون ممالک میں بھی بھارت کی کسانی اور اناج کی اپج کا چرچہ رہتا ہے، ایک بڑا مارکیٹ انہیں کی بنا پر قائم ہے، اس وقت بھی جب کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے بعد ملکی معیشت منفی گروتھ میں جاچکی ہے، اگر کہیں سے کوئی امید ہے تو کسان سیکٹر ہی ہے، پچھلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی معمولی ترقی انہیں کہ وجہ سے دیکھنے کو ملی تھی، ملک کا ہر شعبہ معطل ہوا جاتا ہے؛ لیکن اس بدحالی میں یہی لوگ ہیں جن کے اناج سے فقراء و غرباء ہی نہیں امیر و لاکھ پتی بھی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آزاد بھارت کا کوئی انتخاب ایسا نہیں رہا ہے جب کسانوں کو مدعا نہ بنایا گیا ہو اور ان کی بہبودی و فلاح کا وعدہ نہ کیا گیا ہو، ان سب کے باوجود ملک میں سب سے زیادہ بد نصیبی کی کیفیت انہیں کسانوں کی رہتی ہے، خودکشی کے سب سے زیادہ معاملے ان میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، یہ ایسے بے چارے ہیں جو اپنا اناج دس روپئے میں بیچنے پر مجبور ہوتے اور اسی اناج کو ملک کے سرمایہ دار اسی/ سو روپے بیچتے ہیں، خون پسینہ ایک کرنے کے بعد بھی وہ اس لائق نہیں ہوپاتے کہ گھر کا سکون برقرار رہے، یہی وجہ ہے کسانی کا میدان سرد ہوا جاتا ہے، ہندوستان ٹائمز کے ایک تجزیہ کے مطابق ایک متوسط کسان کی آمدنی ٢٠١٨- اور ٢٠١٩ میں دس ہزار سے زیادہ نہ تھی.*
*تاہم سوال یہ ہے کہ ملک میں اگر کسانوں کی حالت اتنی رنجیدہ اور تشویشناک ہے تو پھر دیگر صوبے کے کسان کیوں احتجاج نہیں کر رہے ہیں؟ اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کیفیت کیوں پیدا ہوئی؟ ظاہر ہے کہ یہ حالت دفعتاً نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ اس کی شروعات دو ماہ قبل ہوئی ہے، جب سمتبر میں تین اہم کسان تجاویز کو منظوری دی تھی، جس کے خلاف پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی میں احتجاج شروع ہوا تھا، اس تجویز کا بنیادی نقطہ یہی تھا کہ کسانوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا جائے، اور سرکار ان کی MSP کم سے کم معاون قیمت کی ذمہ داری سے تحریری طور پر نہ سہی؛ لیکن احوال و ضوابط کے بندھن سے باندھ کر آزاد ہوجائے، چنانچہ اس تجویز کے خلاف پنجاب کے کسانوں نے ٢٤/ سمتبر کو دس مقامات سے ریل روکو آندولن شروع کیا تھا، اس دوران سواری اور سامان ہر دو طرح کی ٹرینیں تھپ پڑ گئی تھیں، مگر اس سے پنجاب اور دیگر کو خاصا نقصان جھیلنا پڑا تھا، بالخصوص سامان والی ٹرینوں کے روک دئے جانے کی وجہ سے ضروری اشیاء سے محرومی لازم آرہی تھی، جس میں کوئلہ شامل ہے، جس کی وجہ سے شٹ ڈاؤن جیسی مشکلوں سے دوچار ہونا پڑ رہا تھا؛ ایسے میں انہوں نے سامان گاڑیوں کے شروع کرنے کی درخواست بھارتی ریلوے کو دی، لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے منع کردیا اور یہاں تک کہا کہ اگر ٹرینیں شروع ہوں گی تو سواری اور سامان گاڑیاں کی بھی خدمات شروع کی جائیں گی ورنہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا کسان کوآرڈینیشن کمیٹی کی رہنمائی میں دلی چلو کی تحریک کا اعلان کیا گیا تھا، اس کمیٹی میں تقریباً دو سو کسانی جماعتیں تھیں، مگر ہوتے ہوتے لگ بھگ پانچ سو کسان کمیٹیاں اس میں شریک ہوگئیں، جس میں پانچ بنیادی نقاط شامل کئے گئے:*
١- جو کسان بل ستمبر پاس کئے گئے تھے انہیں واپس لے لیا جائے.
٢- انہیں تحریری طور پر اپنی اپج کیلئے (MSP) کم سے کم قیمت ملے.
٣- الیکٹریسٹی بل امینڈ مینٹ کو رد کردیا جائے، جس کے تحت انہیں خدشہ ہے؛ کہ بجلی کی سبسڈی نہیں ملے گی.
٤- ان تجاویز کو واپس لے لیا جائے جس سے بھوسہ جلانے کی وجہ سے تین سال کی جیل یا ایک کروڑ تک جرمانہ ہوسکتا ہے.
٥- ان کسانوں کو چھوڑ دیا جائے جنہیں بھوسہ جلانے کی وجہ سے جیل بھیجا گیا ہے.
*احتجاج کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں سے بات کرنے کو تیار ہے، وزیر اعظم نے اپنی من کی بات میں اس موضوع کو اٹھایا تھا، ساتھ ہی ٣٢/ کسان جماعتوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس بھی بلایا ہے، مگر اس کے باوجود کسان رکے نہیں، دراصل سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے کسانوں کو مرکزی حکومت پر بھروسہ نہیں ہے، سرکار نے MSP نہ بدلنے کی بات کہی اس کے باوجود وہ سب اپنی مانگ پر ڈٹے ہوئے ہیں، چنانچہ کسانوں نے دس سال کیلئے تحریری طور پر MSP کی رعایت کرتے ہوئے گیہوں اور دھان خریدنے کی مانگ کی؛ لیکن انہیں ناامیدی ہی ہاتھ لگی، یہ دقتیں پورے ملک میں تقریباً ہیں، ایسے میں یہ سوال مزید گہرا ہوجاتا ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہی کیوں؟ یہ اس لئے کیوں کہ MSP کا سب سے زیادہ فائدہ انہیں کو ہوتا ہے، یہ اگرچہ ٢٣/ قسم کے پیداوار پر لاگو ہوتی ہے؛ لیکن ہماری سرکار سب سے زیادہ گیہوں اور دھان ہی خریدتی ہے، تقریباً تیس فیصد گیہوں اور دھان MSP پر خریدے جاتے ہیں، یہ بھی قابل غور بات ہے کہ یہ انہیں علاقوں سے خریدے جاتے ہیں جہاں سے سبز انقلاب (Green revolution) آیا تھا، یعنی پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی، ٥٠/ فیصد سے زیادہ دھان اور گیہوں پنجاب اور ہریانہ سے ہی خریدا جاتا ہے، ٢٠١٨/١٩ میں ہریانہ کی ٨٠/ اور پنجاب کی ٧٣/ فیصد گیہوں کی پیداوار کو سرکار نے MSP پر خریدا تھا.*
*یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کو ہی MSP کا فائدہ کیوں ہوتا ہے دیگر کو کیوں نہیں؟ اس لئے کیوں کہ دوسرے صوبوں میں وہ بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے کہ ہماری سرکار ان سے MSP پر خریداری کر سکے، ایم ایس سوامی ناتھن جن کا سبز انقلاب میں بڑا کردار رہا ہے؛ انہوں نے کہا تھا کہ یہ سرکاری منڈیا ٨٠/ اسکوائر کلومیٹر میں ہونا چاہئے،نیز کسی بھی کسان سے پانچ کلو میٹر دوری پر ہونا چاہئے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ سہولت پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی کے علاوہ دیگر صوبوں میں آسانی سے نہیں پائی جاتیں، اور انہیں سرکاری منڈیوں کیلئے بہت دور سفر کرنا پڑتا ہے؛ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ٢٠١٢ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ٣٠/ فیصد لوگوں کو ہی MSP کے بارے میں معلوم تھا اور ١٣ سے ١٦/ فیصد ہیMSP پر اناج بیچ پائے تھے، ایک دوسری رپورٹ کے مطابق صرف پانچ فیصد ہی کسانوں کا MSP سے فائدہ ہوپاتا ہے، ایک دوسری وجہ ہے یہ کہ دوسرے صوبوں میں جہاں دھان ضروری اخراجات کیلئے اگایا جاتا ہے تو وہیں پنجاب اور ہریانہ میں بیچنے کیلئے اگایا جاتا ہے، تیسری وجہ یہ ہے کہ نئے قانون کے حساب سے میدان بہت وسیع ہوجائے گا؛ ایسے میں سرکار پنجاب اور ہریانہ کے علاوہ صوبوں سے بھی بڑی تعداد میں دھان اور گیہوں لے سکتی ہے، جس کی وجہ سے پنجاب اور ہریانہ کا خاصا نقصان ہوگا، یہی تین وجوہات ہیں جن کی بنا پر بہار الیکشن میں بھی کسان بل کی کوئی مخالفت نہیں دیکھی گئی تھی، بلکہ بہار APMC (سرکاری منڈیوں) کی اجارہ داری ٢٠٠٦ میں ہی ہٹادی گئی تھی، اور وہاں پرائیویٹ ہاتھوں میں ہی زیادہ اناج بیچا رہا ہے؛ تاہم وزیراعظم کی یقین دہانی کے باوجود کسانوں کا یہ آندولن ایک انقلابی رخ لیتا جارہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے، اور مستقبل میں اس کے کیا اثرات ظاہر ہوتے ہیں؟* (تحقیق ماخوذ از - Sooch Utube)

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
01/12/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔