چور بازار سے چوری شدہ سامان خریدنے کا شرعی حکم

چوری کامال جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ حرام ہی رہتا ہے، اوراصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا، اس لیے اگر خریدنے والے کو کسی چیز کے بارے میں یقینی معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے تو اس کے لیے اس کو خرید نا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔ (مستفاد: فتاوی بنوریہ ???? *السنن الکبری میں ہے:" عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها". (السنن الكبرى للبيهقي (5/ 548) کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان) فتاوی شامی"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)*???? ???? *حدیث النبیﷺ* وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ إِلَّا نَهَارًا فِي الضُّحَى فَإِذَا قَدِمَ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلَّى فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثمَّ جلس فِيهِ للنَّاس حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سفر سے واپس آتے تو دن کو چاشت کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے ، جب آپ داخل ہوتے تو پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور وہاں دو رکعتیں پڑھتے ، پھر لوگوں کی خاطر وہاں تشریف رکھتے ۔ متفق علیہ ۔۔أوکماقال النبی ﷺ۔ *(مشکوةشریف حدیث نمبر ٣٩٠٦ )* ناقل✍ہدایت اللہ قاسمی خادم مدرسہ رشیدیہ ڈنگرا،گیا،بہار HIDAYATULLAH TEACHER MADARSA RASHIDIA DANGRA GAYA BIHAR INDIA نــــوٹ:دیگر مسائل کی جانکاری کے لئے رابطہ بھی کرسکتے ہیں CONTACT NO 6206649711 ????????????????????????????????????????????????

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔