کبھی مایوس مت ہونا اندھیرا کتنا گہرا ہو

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*ڈاکٹر* *عباد الرحمن نشاط مدظلہ العالی* کا شمار *حضرت مولانا علی میاں ندوی رح* کے انتہائی معتمد اور قریبی لوگوں میں ہوتا ہے، آپ اصلا لکھمنیاں بیگو سرائے بہار کے رہنے والے ہیں اور حضرت مولانا کے خلیفہ اور مجاز بھی ہیں ندوہ میں دوران طالب علمی متعدد موقع پرخاص طور رابطہ ادب اسلامی کے پروگرام میں ان کو دیکھنے کا موقع ملا ہے، شاید *جامعہ ام القری* کی لائبریری یا کسی اور شعبہ میں ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ انگریزی زبان پر بھی کافی دسترس ہے۔ ان کی طالب علمی کا ایک واقعہ آج *ماہنامہ ارمغان* جنوری ۲۰۱۸ء میں پڑھا ۔ جس کا تعلق میرے آج کے پیغام سے گہرا ہے ،اس لئے پہلے قارئین باتمکین اس واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں پھر حالات حاضرہ کے حوالے سے مزید گفتگو ہوگی ۔ *نشاط صاحب* لکھتے ہیں : کہ لکھمنیاں ضلع بیگو سرائے میں ہماری کلاس کے کچھ دادا قسم کے لڑکے ایک ساتھی کے یہاں آئے ،ان میں کچھ پہلوانی بھی کرتے تھے ، کچھ ہندو کچھ مسلم ،انہوں نے نشاط بھائ کے ساتھی اور عزیز کو گھر سے بلایا اور بتایا کہ آج کلاس میں سیٹ پر بیٹھنے کے سلسلہ میں ایک لڑکے سے جس کا نام *اشرفی* تھا،اور دوسرے گاؤں کا رہنے والا تھا ،گالی گلوچ ہوگئ ہے ،اور اس نے ہمارے ساتھی کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے، آج مل کر اس کی خبر لینی ہے، وہ ابھی اپنے گاؤں سے نکلا ہے، اور ٹم ٹم (ایکا/ گھوڑا گاڑی) سے یہاں آنے والا ہے،سب ساتھی دنڈ ے،ہاکی اور چھڑیاں لے کر چلے ،سامنے سے وہ ٹم ٹم آتی دکھائ دی،ایک ساتھی نے سب لڑکوں کو خبر دی ،کہ وہ دیکھو ٹم ٹم پر بیٹھا آرہا ہے،سب لڑکے اس کو مارنے کے لئے تیار ہوگئے، مگر جب ٹم ٹم سامنے آئی تو سب کی چھڑیاں اور ڈنڈے ہاکیاں نیچے کی طرف جھک گئیں ،تو نشاط صاحب کے عزیز نے ان ساتھیوں سے حیرت کے ساتھ پوچھا کہ تم لوگوں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا اور کیوں اپنی چھڑیاں اور ہاکیاں نیچے کرلیں ،تو سب یک زبان ہوکر بولے ،اتنا بھی ہوش نہیں کہ ٹم ٹم میں *اشرفی* کے ساتھ اس کی بہن بھی بیٹھی تھی، کیا اس کی معصوم بہن کے سامنے ہم اشرفی کو مارتے، وہ صرف اس کی چھوٹی بہن نہیں بلکہ ہم سب کی بھی بہن ہے، بے چاری کو کتنی تکلیف ہوتی* ۔ (ماہنامہ ارمغان جنوری ۲۰۱۸ء ) محترم قارئین باتمکین ! یہ واقعہ بہت پرانا نہیں ہے، نشاط صاحب حیات سے ہیں، پچاس پچپن سال کا ہی واقعہ ہے کہ اس ملک کے لوگوں میں، یہاں تک کے اوباش اور بدمعاش و دادا قسم کے لڑکوں میں بھی اس طرح کی انسانیت اور انسانی قدریں پائی جاتی تھیں ۔کہ وہ کسی کی بہن کے سامنے اس کے بھائ کو مارنا اور پیٹنا انسانیت سے بہت گری حرکت اور کام سمجھتے تھے ۔ لیکن آج نفرت دشمنی اور تعصب کی حالت یہ ہے کہ لوگ (خاص طور پر ملک کا اقلیتی طبقہ کے لوگ) سفر میں بھی مامون و محفوظ نہیں ہیں ،لوگ سفر کرنے سے گھبرا رہے ہیں نہ جانے کہاں اور کس جگہ فرقہ پرست لوگ حملہ بول دیں ۔ ماں کے سامنے بیٹے کو ،بہن کے سامنے بھائ کو،اور باپ کے سامنے بیٹے کو ،اور بیوی کے سامنے شوہر کو بری طرح اور بے شرمی کے ساتھ مارا اور پیٹا جارہا ہے ۔ الغرض حالات انتہائی غیر مطمئن اور نازک ہیں۔ *دلی* جو شاعر کے بقول *دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب* کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں کے فساد نے تو مسلمانوں پر قیامت صغری برپا کر دیا ہے، اور مسلمانوں کو اس فساد سے وہ گہرا زخم لگا ہے کہ مہینوں اور سالوں وقت لگے گا، اس کے مندمل ہونے میں ۔ مسلمانوں کا مالی جانی نقصان اس قدر ہوا ہے کہ برسوں میں اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے ۔ دہلی کا یہ فساد اچانک نہیں ہوا اس کے لئے زمین بہت پہلے سے تیار کرلی گئی تھی،یہ فساد بالکل پری پلانگ اور منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا ۔ دہلی فساد نے تو انسانیت کو شرمسار کردیاہے ،اور پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی اور رسوائی ہوئ ہے ۔ لیکن اس کے باوجود عام لوگوں کا ،ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترکہ احساس ہے کہ یہ فساد ہندو مسلم فساد نہیں ہوا ہے ،اور ایسا کرانے میں فسطائ طاقتیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ اکثر ہندو اور مسلمان امن و سلامتی اور ایکتا و پریم کے خواہاں ہیں مل جل کر باہم رہنا چاہتے ہیں ۔ وہ امن و امان کے ماحول میں اپنی روزی روٹی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ صحیح بھی ہے، کیونکہ یہ ملک اپنی وسعت قلبی اعلی ظرفی اور مہمان نوازی اور امن و شانتی کی وجہ سے دنیا میں جانا جاتا ہے ۔ اس لئے ہمیں یہاں کے ان وقتی حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہر حال میں یقین رکھنا چاہیے کہ حالات جلد بدل جائیں گے ۔ اندھیرا کتنا گہرا ہو ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف *ان* حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دعوتی ذمہ داریاں نبھائیں اور سارے دیش باسیوں کو ان کی ذمہ داری اور ان کا فرض کا احساس دلائیں ، آج انسانوں کو انسانیت بتانے کی بھی سخت ضرورت ہے ۔ پیام انسانیت کے کام کو گاؤں گاؤں پروا پروا پھیلانے کی ضرورت ہے کوئ گاوں تحصیل ضلع بلاک اور محلہ اس سے خالی نہ رہے ۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح جو انسانیت کی کشتی کے مخلص ترین ناخدا،انسانی قدروں کے اصل جوہر شناس تھے جو انسانیت کی ان قدروں کی حفاظت کے لئے بے چین رہتے تھے ۔ جب انہوں نے ستر کی دہائی میں یہ محسوس کیا کہ ہندوستان میں نفرت تعصب اور تنگ نظری کی فضا اور ماحول بنتا جا رہا ہے ملک کے اکثریتی طبقہ میں یہاں کے اقلیتی طبقہ کے خلاف نفرت والا ذہن پیدا ہونے لگا ہے اور پڑھے لکھے اور انٹکچول طبقہ کا ذہن بھی مسموم ہوتا جارہا ہے تو آپ نے نہایت ضروری اور اہم مقصد کے لئے تحریک پیام انسانیت کی داغ بیل ڈالی تحریک کا بنیادی خاکہ اور اس منشور تیار کیا ۲۸/۲۹/۳۹/دسمبر ۱۹۷۴ء کو الہ آباد میں اس مقصد کے لئے ایک بڑی کانفرنس بلائ اور پھر اس تحریک کا ملک گیر آغاز ہوا ۔ اس تحریک کی اہمیت اور ضرورت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا :۰ *افسوس ہے کہ اس لمبے چوڑے ملک میں اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے اور روحانی اور انسانی زندگی کو رواج دینے کے لئے کوئ تحریک اور کوئ جماعت نظر نہیں آتی ،ہم نے بہت انتطار کیا اور آخر یہ فیصلہ کیا کہ جو کچھ بن پڑے اس کو شروع کردیں۔ الہ آباد سے ہم نے اس کام کو شروع کیا ہے،کیونکہ اس کا نام ہی۰۰الہ آباد۔۔ یعنی خدا کی نگری ہے ،یہیں سے خدا پرستی کی تحریک اور انسانیت کے احترام کی دعوت شروع ہونا چاہئے ،خدا کے بندوں کی عزت،انسانیت کو نئ زندگی دینے اور انسانوں کو انسانیت و اخلاق کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کا کام اسی شہر سے ہونا چاہئے تھا جو خدا کے نام سے اباد ہے* پھر آپ نے پوری زندگی اپنی نجی مجالس عوامی جلسوں اور پروگراموں میں انسانوں کو انسانیت کے مقام سے آگاہ کرتے رہے،اور مستقبل کےحالات سے لوگوں کو متنبہ کرتے رہے اور اس کے سنگین نتائج سے ملک کے محب وطن دانش وروں اور قائدین کو جھنجھوڑتے رہے ۔ اس تحریک اور اس کے ذریعے لکھئ گئ کتابوں اور پمفلٹوں کا بڑا مفید اثر اور نتیجہ سامنے ایا ۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے کرسکتے ہیں کہ آنجہانی وی پی سنگھ سابق وزیر اعظم ہندوستان سے لکھنئو میڈیا کے لوگوں نے ایک پریس کانفرنس میں اس زمانہ میں سوال کیا تھا جب وہ بہت بیمار تھے،کہ آپ اپنی کوئ پہلی اور سب سے آخری خواہش بتائیے تو انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ *میں علی میاں کے خوابوں کا ہندوستان دیکھ کر مرنا چاہتا ہوں ۔ جس میں ایسے انسان بستے ہوں جس کی انسانیت مری اور سوئ ہوئ نہ ہو* (بحوالہ ماہنامہ ارمغان جنوری ۲۰۱۸ء)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔