کتنا بدل گیا اسلام

از ، محمد ہارون قاسمی

مجھے نہیں معلوم کہ یہ میرے عقیدہ کی کمزوری ہے یا سلامتی ایمان کی دلیل ہے کہ تمام تر حکمتوں اور مصلحتوں کو سامنے رکھ کر بھی اپنے قومی و مذہبی اشرافیہ اور ملک پر مسلط ارباب اقتدار کا ہر وہ فیصلہ جو مجھے اسلامی شریعت کے مزاج سے متصادم نظر آتا ہے میرا خطا کار دل و دماغ اس کو ٹھنڈے پیٹ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اسلام انسانی فطرت سے ہم آہنگ ایک ابدی مذہب ہے جس میں تمام انسانوں کی خیر و فلاح پوشیدہ ہے میں سمجھتاہوں کہ اسلام کے کسی حکم میں انسانوں کے لئے کبھی کسی ضرر اور نقصان کا عنصر شامل نہیں ہوسکتا ۔۔۔ اسلام قیامت تک کے لئے آیا ہے اور اس کو قیامت تک باقی رہنا ہے مجموعی طور اسلام کی روح آج بھی باقی ہے اور انشاءاللہ قیامت تک باقی رہیگی ۔۔۔ دنیا کے اندر ایک وبا کا شور ہے خوف ہے ہنگامہ ہے کہاجاتا ہے کہ یہ بیماری متعدی ہے اور یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ جاتی ہے ساری دنیا بشمول مسلمان قوم محطاط اور خوفزدہ ہے اور تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہے ۔۔۔ مگر مذہبی نقطہ نظر سے عام مسلمان کا رد عمل حیرت انگیز طور پر اس سے بالکل مختلف تھا لوگ عام طور پر مسجدوں کا رخ کر رہے تھے اور مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد میں بہت کچھ اضافہ دیکھنے کو مل رہا تھا ۔ ایک عام مسلمان اس بات سے قطعا بے پرواہ تھا کہ اسے کسی دوسرے شخص کی بیماری متاثر کرسکتی ہے مسلمانوں کا یہ عملی مظاہرہ اس ایمان و یقین کا عکاس تھا کہ موت اور زندگی صرف اس ذات وحدہ لاشریک لہ کے قبضہ قدرت میں ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جس پر وہ ایمان رکھتا ہے ۔ مسلمانوں کا یہ طرز عمل عین اسلام کے مزاج کے مطابق تھا جو بلاشبہ اس دور فتن میں امید کی ایک روشن کرن تھی اور جو اس بات کی دلیل تھی کہ اس قوم کے سینے کے اندر ابھی کسی نہ کسی درجہ میں خوف خدا اور ایمان و یقین کی روشنی موجود ہے ۔ جبکہ غیر مسلم حکمراں نہیں جانتے کہ عمومی بلاوں کے ظہور کے وقت اسلام نے ان سے تحفظ کے کیا طریقے بتائے ہیں ۔ موقع تھا کہ ہم اپنی حکومت کی مدد کرتے اور ارباب حکومت کو بتاتے کہ اسلام میں اس طرح کی وبا سے بچنے کا ایک کامیاب طریقہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم مساجد کے اندر اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ دعاوں کا اہتمام کریں آیت کریمہ کا ورد کریں اور سورہ کہف کی تلاوت کریں وغیرہ وغیرہ ۔۔ ہم خدا کی ذات پر یقین اور توکل کے ساتھ گھبراہٹ کی شکار اپنی حکومت کو بتاتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں قرآن کریم میں اس بیماری کا علاج موجود ہے ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں کی ہمت بڑھاتے ان کو یقین دلاتے کہ مسجدوں میں کی جانے والی عبادتیں اور خدا تعالی سے کی جانے والی دعائیں تمہاری دوسری تمام تدبیروں سے کہیں زیادہ موثر اور کامیاب ثابت ہوسکتی ہیں ۔۔۔ اگر رہبران اسلام اس وقت یہ داعیانہ کردار ادا کرتے تو خدا کی ذات پاک پر یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بہت ہی بہتر اور مثبت نتائج برآمد ہوتے ۔ اس حکمت عملی سے کئی بڑے فائدے حاصل ہوتے خدا کی حقیقی رضا حاصل ہوتی ۔ مسلمانوں کے ایمان و عمل کے جذبہ کو مزید تقویت ملتی ملک کے غیر مسلم باشندوں میں خوف کم ہوتا اسلام کی صداقت کا ظہور ہوتا اور ملک اور حکومت کی یہ بڑی مدد ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دجال کے کارکنوں کے مکر و فریب کی اس سے کمر ٹوٹتی ۔ مگر سوء قسمتی کہ اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا اور یہ دعوتی تدبیر اختیار نہیں کی گئی ۔ بلکہ اس کے برعکس اہل ایمان کو مسجدوں کے اجتماعات سے باز رہنے اور گھروں میں عبادت کرنے کی وہی تدبیر سجھائی گئی جو کسی ناخدا شناس گروہ اور کسی غیر مسلم حکومت کی ہوسکتی ہے ۔۔۔ ہم نے اپنے اس منفی احتیاطی عمل سے سب سے پہلے مسلمانوں کے ایمانی جزبہ کو سرد کرنے اور ملت کے خاکستر میں جو چنگاریاں نظر آرہی تھیں جانے انجانے میں ان پر پانی ڈالنے کا کام کیا ہے ۔ ساتھ ہی ہم نے اپنے اس فیصلہ سے اسلام کی عمومی دعوت کا ایک موقع گنوا دیا ہے اور عالمی سطح پر دجال کے کارکنوں کی مقصد براری میں ان کا تعاون کیا ہے ۔ خدا ہمیں معاف کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری یہ بغاوت آمیز فکر آپ کے فکر و ذہن کو کس قدر اپیل کرسکتی ہے ۔ مگر موجودہ ناموافق حالات کی خاموش فضاؤں سے آنے والی آواز شاید یہی کہ رہی ہے کہ آج کس قدر بدل گیا ہے اسلام ۔ کتنے بدل گئے ہیں اسلام کے ائمہ اور قائدین ۔ دل پر چوٹ لگتی ہے اور پھر سوچتا ہوں کہ ایک اسلام وہ تھا جو مصائب اور مشکلات کے وقت اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتا تھا اور ایک اسلام یہ ہے جو ہمیں ایک معمولی سی بیماری کے خوف سے خدا کے گھروں میں نہ جانے کی تعلیم دے رہا ہے ایک وقت وہ تھا جب ایمان والے لوگ ہر طرح کی وبا اور پریشانی سے چھٹکارے کےلئے مسجدوں کا رخ کیا کرتے تھے اور ایک وقت یہ ہے جب اسلام کو ماننے والے لوگ ایک چھوٹی سی بیماری سے تحفظ کےلئے اپنے گھروں میں نماز پڑھنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں ۔ اور اپنے اس عمل شرعی سے وہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی جان کے تحفظ کا اہم فریضہ ادا کر رہے ہیں ۔ شاید پہلا زمانہ اس قدر ترقی یافتہ نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ جب کسی بھی بڑی سے بڑی آفت اور مصیبت کے وقت مسلمانوں نے اس طرح اجتماعی طور پر مساجد سے کنارہ کشی اختیار کی ہو جیسا کہ آج کی گئی ہے اور کی جارہی ہے ۔ لگتا ہے وقت اور زمانے کے ساتھ اسلام کے اندر اب بہت کچھ لچک پیدا ہوگئی ہے اور اب اسے کفر سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں رہ گیا ہے اب نئی ترقی کے دور میں رفتار زمانہ کے ساتھ چلنا اس کا مزاج بن گیا ہے مندر گردوارے اور گرجوں کو اگر بند کردیا گیا تو مسجدوں کو بند کرنے میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے صاف ہے کہ کفر کے ساتھ چلنے کی اب اس میں کافی کچھ صلاحیت پیدا ہو چکی ہے ۔ اب مسلمانوں کے اندر بھی اتنی سمجھ آگئی ہے کہ اگر بوقت ضرورت غیر مسلم اپنے دیوتاوں کی پوجا پاٹ چھوڑ دیتے ہیں تو شاید مسلمانوں کو بھی اپنے خدا کی بندگی اور عبادت کو ترک کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا ۔۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ ایسے حساس موقع پر جبکہ ساری دنیا ایک عالمی وبا کے خوف سے سہمی ہوئی ہے ہر طرف ہاہاکار ہے جان کے لالے پڑے ہیں ۔ قلم اور زبان پر قابو رکھنا بھی عین انسانی خدمت ہے ۔۔ تاہم ہارٹ اٹیک سے روزانہ ہزاروں لوگ مرتے ہیں ملیریا اور دماغی بخار سے یومیہ ہزاروں لوگ اپنی جان گنواتے ہیں ایکسیڈینٹ سے ہر روز ہزاروں لوگ روڈ پر دم توڑ دیتے ہیں مگر ان سے دنیا کو کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوتا البتہ چار مہینوں میں دنیا بھر میں کرونا وائرس سے پچیس ہزار لوگ مر جاتے ہیں جس سے پوری دنیا کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور کیوں نہو ایکسیڈینٹ یا ہارٹ اٹیک اور ملیریا اور دماغی بخار جیسے حادثات اور بیماریاں متعدی تھوڑا ہی ہیں ۔ لہذا اس عالمی وبا کی تعدی اور پھیلاو کو روکنے کے لئے مسجدوں کی بھیڑ اور اجتماعات کو روکنا عین عقل و شرع کا تقاضہ تھا ۔ شاید تجربہ امید سے کہیں زیادہ کامیاب رہا ہے اور مسلمانوں کا یہ اجتماعی منفی عمل مسیح دجال کے کارکنوں کے لئے باعث اطمینان ہوگا اور ان کو یقین ہوچلا ہوگا کہ اسلام کو ماننے والی قوم اب ان کے مسیح کے احکامات کی کچھ زیادہ مزاحمت نہیں کرسکے گی اور اس کے لئے راستہ قریب قریب صاف ہوچکا ہے ۔ پیشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر راقم کی اس تحریر میں کہیں حقیقت سے انحراف کا پہلو نظر آئے تو برائے مہربانی اس کو ایک دیوانہ کی بڑ بڑاہٹ سمجھکر نظر انداز فرمائیں کیوں کہ میری فہم ہی اتنی ناقص اور کمسن ہے جو اتنی سی بات سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ یہ وقت مسجدوں کو آباد کرنے کا نہیں بلکہ انسانی جانوں کا بچانے کا ہے اسلام کا تحفظ ہوتا رہیگا پہلے جان تو بچے ۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کہنا چاہتاہوں اور میں کیا لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں سچائی یہ ہے کہ میرے اندر کچھ لکھنے کی ہمت نہیں کچھ بولنے کی طاقت نہیں دل پر ایک بوجھ ہے سینے میں ایک جلن ہے قلم پر لرزہ طاری ہے زبان میں لکنت کا احساس ہے الفاظ کا قحط ہے ذہن انتشار کا شکار ہے ۔ کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن کہ نہیں پارہا ہوں کچھ لکھنا چاہتاہوں لیکن لکھ نہیں پارہاہوں ۔ سوچتاہوں افسردگی میں ڈوبے اپنے غمزدہ دل کی سسکیوں کو الفاظ میں ڈھال کر اپنے احباب ہی سے شیئر کرلوں تاکہ اپنے قلب حزین کو کچھ تسکین میسر آجائے اور اپنے سینے کی سوزش کو کچھ سکون مل جائے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی سماعتوں کا کیا حال ہے دنیا کے چپہ چپہ سے آنے والی آوازیں جو آپ کے کانوں میں پڑ رہی ہیں وہ آپ کے دل و دماغ پر کیا اثر ڈال رہی ہیں وہ آپ کے لئے تسکین کا باعث ہیں یا پھر وہ آپ کے لئے اضطراب کا سبب بن رہی ہیں ۔ مگر میں اپنے گنہگار کانوں کو کیا کروں جن سے مسلسل زمین کے ہر گوشہ سے آنے والی دل دوز صدائیں ٹکرا رہی ہیں اور مجھے بے چین کر رہی ہیں ۔ یہ صدائیں دنیا کو اپنی گرفت میں جکڑ لینے والی وبائی بیماری پر عالم انسانیت کی چیخ و پکار کی نہیں ہیں ۔ یہ صدائیں دنیا کے چپہ چپہ سے ملنے والی انسانی ہلاکتوں پر آہ و بکا کی نہیں ہیں ۔ یہ صدائیں ملک اور بیرون ملک انسانی زندگی کو جام کردینے والے لاک ڈاون کے سبب غریبوں اور مزدوروں کی بھوک اور پیاس کی تڑپ اور بے چینی کی بھی نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ صدائیں وہ ہیں جنہیں میری سماعتیں کبھی سننا نہیں چاہتیں میرا سینہ پھٹا جاتا ہے میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے جب یہ آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے تحفظ کےلئے حرمین شریفین کے دروازے اہل ایمان کے لئے(جزوی طور پر سہی) بند کردئیے گئے ہیں ۔ معصیت میں ڈوبی میری مجروح آنکھیں ویران مسجدوں کے خاموش اور بے رونق مناظر دیکھ کر پتھرا سی جاتی ہیں ۔۔ جنہیں دیکھنے کی نہ میرے اندر طاقت تھی اور نہ میری کمزور بصارتیں کبھی یہ مکروہ مناظر دیکھنا گوارا کرسکتی تھیں ۔ میرا نامراد قلب بے بصیرت خون کے آنسو رو تا ہے جب خبریں آتی ہیں کہ پرستاران حق و صداقت کے ارباب حل و عقد نے خدا کے گھروں میں نماز ادا نہ کرنے کے حکومتی احکامات کی تائید و توثیق کرکے اپنا فرض منصبی پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کردیا ہے ۔ میں اولوالامر اور مقتدرہ سے بغاوت کا جرم نہیں کرسکتا میں اپنے پیشوایان مذہب کے فیصلہ سے اختلاف کی جرائت بھی نہیں کرسکتا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں میرا باغی قلب ناتواں موجودہ صورت حال میں والیان اقتدار و مذہب کے حالیہ فیصلوں کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا ۔ میرے ناقص فہم و شعور کو لگتا ہے کہ شاید ہم نے جانے انجانے میں اس راہ نجات کو چھوڑ دیا ہے اور ہم نے خود اپنے ہاتھوں اس ڈھال کو توڑ پھینکا ہے جو ہمارے تحفظ کا سب سے مضبوط اور کامیاب ذریعہ تھا ۔ ہم نے تو ہر مصیبت کے وقت ہمیشہ خدا کے گھر میں پناہ لی ہے ہمیں تو ہمیشہ یہیں سے تحفظ ملا ہے ۔ ہر دور میں ہمارے مسائل یہیں سے حل ہوئے ہیں ۔ یہی تو رحمت الہی کے حقیقی موارد ہیں اور یہی تو ہمارا آخری ملجا و ماوی ہے ہم نے سنا تھا کہ جو لوگ خدا کے گھر میں پناہ لیں گے دنیا کا سب سے بڑا شریر اور فتین اعظم مسیح دجال بھی انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکےگا ۔ مگر آج ہم نے خود ہی اپنے لئے اس مہبط رحمت و انوار کے دروازے بند کرلئے آج ہمارا گنہگار وجود اسی آستانہ رحمت کے سایہ کریمہ سے محروم ہوچکا ہے ہم کتنا بدل گئے ہیں ہمارا مزاج کتنا بدل چکا ہے ۔ آج ہمارے لئے مسجدوں میں خطرات پیدا ہوگئے ہیں آج ہم تسلیم کر رہے ہیں کہ مسجدوں سے وبائیں اور بلائیں پھیل سکتی ہیں ۔ آج ہمارا اسلام ہم سے کہ رہا ہے کہ وبا اور مصیبت کے وقت خدا کے گھروں کو چھوڑ دو ورنہ وبا کے شکار ہوجاوگے ۔ آج سربراہان اسلام ہمیں بتا رہے ہیں کہ لوگو خدا کے گھروں کا رخ نہ کرو اور اپنا تحفظ کرو ۔ یہ تو دجالی فتنہ کے بہت ہلکے سے چھینٹے ہیں سوچتا رہ جاتا ہوں کہ جب یہ امت اس معمولی وبا کی صورت میں خدا کے گھروں کو اس طرح چھوڑ سکتی ہے تو پھر وہ فتنہ دجال کے اس اصل دھارے کا مقابلہ کیسے کرے گی جس میں اس کی آنکھوں کے سامنے موت اور زندگی کا تماشا دکھایا جائے گا جب اس کی نظروں کے سامنے مردوں کو زندہ کیا جائے گا اور زندوں کو موت کی نیند سلایا جائے گا جب ان کی نگاہوں کے سامنے جنت اور جہنم کا مصنوعی نظارہ ہوگا اور اس کو دولت و کامیابی اور بھوک اور غربت کی پرفریب وادیوں سے گزارا جائےگا ۔ اس وقت دجالی کفر اپنی تمام تر آسائش و زیبائش کے ساتھ اہل ایمان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہوگا ان کی آنکھیں کفر کے جلو میں تمام تر کامیابیوں اور سرفرازیوں کے خزانے دیکھ رہی ہوں گی ۔ سوچئے یہ امت ان کٹھن گھاٹیوں سے کیوں کر سلامتی کے ساتھ گزر سکتی ہے ۔ جب کہ آج اس کا حال یہ ہے کہ ایک منصوعی بیماری کے خوف سے مسجدوں میں جانا چھوڑ دیتی ہے ۔۔۔۔ اللہ رب العالمین ہمارے اس جرم عظیم کو معاف کردے ۔ آمین اور آخر میں میری ایک ناقص سی تجویز ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمارے وہ با اثر قومی اور مذہبی رہنماء جن کے دل میں ایمان و بصیرت کا نور ہے اور وہ ارباب اقتدار تک رسائی رکھتے ہیں ۔ وہ موجودہ حالات میں اپنا وہ کردار ادا کریں جو ایک مسلمان کی حیثیت سے انہیں ادا کرنا چاہئیے ۔ اگرچہ کچھ دیر ہوچکی ہے مگر پھر بھی وہ اس ہنگامی صورت حال میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں اس کی مدد کریں ۔ کیوں کہ حکومت کے پاس سر دست اس مصیبت سے نجات کا کوئی علاج اور انتظام نہیں ہے وہ حکومت سے کہیں کہ اس وبا کا کامیاب علاج اسلام میں موجود ہے وہ حکومت کو سمجھا ئیں کہ وہ مسجدوں سے پابندی ہٹائے اور عام مسلمانوں کو کچھ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مسجد میں نماز کی اجازت دے وہ یہ مسئلہ اسلامی یا مذہبی نقطہ نظر سے پیش نہ کریں بلکہ ایک انسانی خدمت اور ملک و قوم کو درپیش وبائی مسئلہ کے حل کی صورت میں پیش کریں ۔ ان کو بتائیں کہ اگر ہر پڑھا لکھا مسلمان خدا کے گھر میں اجتماعی طور کثرت سے آیت کریمہ اور سورہ کہف پڑھنے کا اہتمام کرے گا تو انشاءاللہ العزیز اس وباء سے بہت جلد چھٹکارا مل جائے گا ۔۔۔ رہبران اسلام کا یہ دعوتی عمل رضا الہی کا سبب ہوگا اور یہ ملک اور قوم کی ایک عظیم خدمت ہوگی ۔۔۔ شک اور وہم کو دل میں ہرگز جگہ نہ دیں اگر آپ یقین کے ساتھ حکومت کے سامنے یہ تجویز رکھیں گے اور خدا کرے کہ یہ تجویز ارباب اقتدار کی سمجھ میں آجائے تو اللہ کی ذات پر یقین رکھیں کہ جب آپ خدا کے گھر میں اجتماعی طور پر خدا سے مانگیں گے تو خدا تعالی آپ کو مایوس نہیں کرے گا اور انشاءاللہ تعالی اس خوفناک وباء سے انسانی دنیا نجات پائے گی ۔ کیونکہ یہ اسلام کی حقانیت اور صداقت اور اس کی عظمت اور تقدس کا سوال ہوگا اور اللہ رب العزت اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کو کبھی رسوا نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔ اور اگر خدا نخواستہ آپ ایسا نہیں کرسکتے یا حکومت آپ کی بات تسلیم نہیں کرتی جس کا امکان بھی زیادہ ہے تو پھر میری اپنے تمام مخلص احباب سے گزارش ہے کہ وہ دو باتوں کا خیال رکھتے ہوئے یہی متذکرہ اعمال اپنے اپنے گھروں میں کریں ۔ ایک تو مسجدوں میں عمومی نماز کی پابندی پر اپنے دل کے اندر ایک کڑھن اور بے چینی کا احساس کریں اور دوسرے خدا تعالی سے انتہائی ندامت کیساتھ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور جیسا آج آپ اپنے رب کی طرف متوجہ ہیں اس جزبہ کو ہمیشہ قائم رکھیں ۔ یہ پریشان کن مرحلہ تو انشاءاللہ بہت جلد گذر جائے مگر دعاوں اور عبادتوں کا یہ پاکیزہ سلسلہ ہمیشہ جاری وساری رکھیں کہ یہی دارین کی فلاح و کامرانی کی اصل کنجی ہے ۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔