کرونا وائرس (Corona Virus) کی وجہ سے گھر اور مسجد سے اذان کا حکم

*⚖سوال و جواب⚖*

*مسئلہ نمبر 1102*

(کتاب الصلاۃ باب الاذان)

*کرونا وائرس (Corona Virus) کی وجہ سے گھر اور مسجد سے اذان کا حکم*

*سوال:* کچھ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنے اپنے گھر پر اذان دے رہے ہیں اور کچھ مسجد سے ایک خاص وقت میں نماز دینے کو کہہ رہے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ (محمد علی، نگرور بہرائچ یوپی)

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

*الجواب بعون اللہ الوہاب*

شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جو چیز جس طرح ثابت ہو اس کو اسی انداز میں انجام دیا جائے، اپنی جانب سے یا اپنی سمجھ سے اگر کوئی چیز کی جایے تو خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو شریعت کی نظر میں مردود ہے(١) اذان شریعت اسلامی کا شعار ہے، لیکن وہ پنجہ وقتہ نمازوں کے لیے ہے، بعض اور مواقع پر بھی اذان دینا مستحب ہے جیسے بچے کے کان میں اذان دینا وغیرہ(٢)

فقہاء کرام میں سے امام شافعی رحمہ اللہ سے اس سلسلے میں مزید مقامات پر اذان دینے کا استحباب منقول ہے جنہیں علامہ ابنِ نجیم مصری نے البحر الرائق اور خاتمۃ المحققین علامہ شامی نے فتاوی شامی میں علامہ خیر رملی کے حوالے سے نقل ہے؛ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان فقہاء میں سے کسی نے بھی وبائی امراض کی وجہ سے اذان دینے کی بات نہیں لکھی ہے(٣)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں طاعون جیسا خطرناک وبائی مرض عام ہوگیا تھا مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس موقع پر بھی اذان دینا کسی اثر سے ثابت نہیں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ وبائی أمراض کی وجہ سے اذان دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام و تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے بالکل بھی ثابت نہیں ہے، غالبا اسی لیے کتب فقہ اس مسئلہ کی صراحت سے خاموش ہیں.

اس لئے کرونا وائرس (Corona Virus) کی وجہ سے اپنے گھروں اور مساجد سے اذان دینا من گھڑت اور غیر ثابت شدہ بات ہے، اس سے احتراز واجب و لازم ہے، علماء و ائمہ کو چاہیے کہ اس سے لوگوں کو منع کریں اور قبل اس کے کہ یہ مستقل بدعت کی شکل اختیار کر لے اس پر روک لگائیں؛ اس لئے کہ کسی ایسی چیز کو واجب و لازم سمجھ لینا جو شرعا ثابت نہ ہو شریعت اسلامی کی نگاہ میں بدعت ہے(٤)

اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اگر کھینچ تان کر کوئی شخص اذان کا جواز ثابت بھی کرلیتا ہے تو ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں قطعاً مناسب نہیں ہوگا؛ کیونکہ اگر ہم رات میں اٹھ کر اذانیں دیں گے وہ بھی گھر گھر سے تو بیشمار غیر مسلموں کو تکلیف ہوگی اور ان کی نیندیں خراب ہونگیں، پھر اگر انہوں نے رد عمل میں یا اپنے عقیدے کے مطابق سنگ بجانا یا تالی تھالی بجانا شروع کر دیا تو پھر کس قدر ماحول پر برا اثر پڑے گا سوچا بھی نہیں جاسکتا؛ اس لئے خدا کے واسطے لوگوں کو اس چیز سے باز رہنا چاہیے اور قوم مسلم کے لیے مزید پریشانیوں کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*????والدليل على ما قلنا????*

(١) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ". (صحيح البخاري رقم الحديث ٢٦٩٧ كِتَابٌ : الصُّلْحُ | بَابٌ : إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ)

ومفهومه أن من عمل عملا عليه أمر الشرع فهو صحيح، مثل أن يقال في الوضوء بالنية: هذا عليه أمر الشرع، وكل ما كان عليه أمر الشرع فهو صحيح. (فتح الباري بشرح صحيح البخاري ٢٦٩٧ كِتَابٌ : الصُّلْحُ | بَابٌ : إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ)

(٢) يندب الأذان في أذن المولود اليمنى عند ولادته.... كما يندب الأذان وقت الحريق و وقت الحرب. (كتاب الفقه على المذاهب الأربعة ٢٩٥/١ كتاب الصلاة)

ﻭﻓﻲ ﺣﺎﺷﻴﺔ اﻟﺒﺤﺮ اﻟﺮﻣﻠﻲ: ﺭﺃﻳﺖ ﻓﻲ ﻛﺘﺐ اﻟﺸﺎﻓﻌﻴﺔ ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﻳﺴﻦ اﻷﺫاﻥ ﻟﻐﻴﺮ اﻟﺼﻼﺓ، ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺃﺫاﻥ اﻟﻤﻮﻟﻮﺩ، ﻭاﻟﻤﻬﻤﻮﻡ، ﻭاﻟﻤﺼﺮﻭﻉ، ﻭاﻟﻐﻀﺒﺎﻥ، ﻭﻣﻦ ﺳﺎء ﺧﻠﻘﻪ ﻣﻦ ﺇﻧﺴﺎﻥ ﺃﻭ ﺑﻬﻴﻤﺔ، ﻭﻋﻨﺪ ﻣﺰﺩﺣﻢ اﻟﺠﻴﺶ، ﻭﻋﻨﺪ اﻟﺤﺮﻳﻖ، ﻗﻴﻞ ﻭﻋﻨﺪ ﺇﻧﺰاﻝ اﻟﻤﻴﺖ اﻟﻘﺒﺮ ﻗﻴﺎﺳﺎ ﻋﻠﻰ ﺃﻭﻝ ﺧﺮﻭﺟﻪ ﻟﻠﺪﻧﻴﺎ، ﻟﻜﻦ ﺭﺩﻩ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻌﺒﺎﺏ، (رد المحتار على الدر المختار ٥٠/٢ كتاب الصلاة باب الأذان)

ﻗﺎﻝ اﻟﺮﻣﻠﻲ ﺃﻱ اﻟﺼﻠﻮاﺕ اﻟﺨﻤﺲ ﻓﻼ ﻳﺴﻦ ﻟﻠﻤﻨﺬﻭﺭﺓ ﻭﺭﺃﻳﺖ ﻓﻲ ﻛﺘﺐ اﻟﺸﺎﻓﻌﻴﺔ ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﻳﺴﻦ اﻷﺫاﻥ ﻟﻐﻴﺮ اﻟﺼﻼﺓ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺃﺫاﻥ اﻟﻤﻮﻟﻮﺩ ﻭاﻟﻤﻬﻤﻮﻡ ﻭاﻟﻤﻔﺰﻭﻉ ﻭاﻟﻐﻀﺒﺎﻥ ﻭﻣﻦ ﺳﺎء ﺧﻠﻘﻪ ﻣﻦ ﺇﻧﺴﺎﻥ ﺃﻭ ﺑﻬﻴﻤﺔ ﻭﻋﻨﺪ ﻣﺰﺩﺣﻢ اﻟﺠﻴﺶ ﻭﻋﻨﺪ اﻟﺤﺮﻳﻖ ﻗﻴﻞ ﻭﻋﻨﺪ ﺇﻧﺰاﻝ اﻟﻤﻴﺖ اﻟﻘﺒﺮ ﻗﻴﺎﺳﺎ ﻋﻠﻰ ﺃﻭﻝ ﺧﺮﻭﺟﻪ ﻟﻠﺪﻧﻴﺎ ﻟﻜﻦ ﺭﺩﻩ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻌﺒﺎﺏ ﻭﻋﻨﺪ ﺗﻐﻮﻝ اﻟﻐﻴﻼﻥ ﺃﻱ ﻋﻨﺪ ﺗﻤﺮﺩ اﻟﺠﻦ ﻟﺨﺒﺮ ﺻﺤﻴﺢ ﻓﻴﻪ ﺃﻗﻮﻝ: ﻭﻻ ﺑﻌﺪ ﻓﻴﻪ ﻋﻨﺪﻧﺎ. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق 269/1 كتاب الصلاة باب الأذان)

(٣) كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنيۃ أمر أو وجوبہ فهو مكروه (تنقيح الفتاوى الحامدية : ٢/ ٥۷۴ ،)

إن المندوب ربما انقلب مکروها إذا خیف علی الناس أن یرفعوہ عن رتبته (إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/ ۵۸۶، کتاب الأذان، باب الانتقال والانصراف عن الیمین والشمال)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي* دار الا??تاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا مورخہ 30/7/1441 رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔