کسان آندولن اور عالمی برادری میں رسوائی

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1178)
*کسان آندولن اور عالمی برادری میں رسوائی -*
https://t.me/joinchat/T78wo9HSWkM5dOhs

*ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت رسوائی جھیلنے کی عادی ہوگئی ہے، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا ہمارے ملک کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے، گاندھی جی کی غیر متشدد والے ملک کو متشدد پسند سمجھا جائے یا پھر اس کی بھائی چارگی اور آپسی محبت سولی چڑھ جائے، انہیں تو بَس اپنے قوانین اور ناک کی پڑی ہے، کسان آندولن کے سلسلہ میں بھی عوام کی جانیں جارہی ہیں، مگر سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اس کے برعکس انہیں ایک گھیراؤ میں قید کر کے زندگی اجیرن کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے، راکیش ٹیکیت کی قیادت میں یہ تحریک نہ صرف اپنی بلندی و عروج کو پہنچ رہی ہے، عوام کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے، جگہ جگہ پنچایت کے بینر تلے لوگ جمع ہورہے ہیں؛ بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے سپورٹ حاصل ہورہا ہے، ان پر ظلم و زیادتی کی داستانیں عام کی جارہی ہیں، حقوق انسانی کا گھولا گھونٹنے کا الزام عائد کر رہی ہے اور ہندوستان کو جمہوری اقدار مجروح کرنے کا ملزم سمجھ رہے ہے، چنانچہ پوری دنیا میں محترم اور معزز شخصیات ان کا نوٹس لے رہی ہیں، ٢/ فروری ٢٠٢١ کو پاپ سنگر ریحانہ نے CNN کی ایک اسٹوری کو شیر کرتے ہوئے لکھا کہ ہم آخر ہم اس بارے میں بات کیوں کر رہے ہیں، اسی کے ساتھ انہوں نے #Farmer protest بھی لگایا تھا، ان کے اس پوسٹ پر ٦٦/ ہزار سے زائد رایکشن آچکے ہیں، ١٤/ ہزار سے زیادہ دوبارہ ٹویٹ کیا جا کا ہے، اور ١٥٦ ہزار سے زیادہ لائک آچکے ہیں، ان کا ٹویٹ جس وقت آیا تھا اس وقت یہ ٹاپ ٹرینڈ میں شامل ہوگیا تھا، فضائی آلودگی کے سلسلہ میں مشہور اور عظیم ایکٹیوسٹ گریٹا تھنبرگ نے بھی کسانوں کے سلسلہ میں ٹویٹ کیا ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ ہم بھارت میں چل رہے کسان آندولن کا ساتھ دیتے ہیں، امریکی کانگریس مَین جِم کوسٹا نے بھی کہا ہے کہ بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت ہی قابل غور ہے، بیرونی معاملہ کی دیکھ ریکھ کرنے والے کی حیثیت سے میری نگاہیں ان پر بنی ہوئی ہیں، شانتی کے ساتھ احتجاج کرنے کا حق سبھی کو ہے، اسی طرح امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مِینا ہیرس نے بھی کسانوں کا سپورٹ کیا ہے، اور کہا ہے کہ جس طرح اس احتجاج میں انٹرنیٹ تھپ کیا جارہا ہے، فوجی طاقت کا استعمال ہورہا ہے انہیں لے کر ہمیں متفکر ہونا چاہئے، ان کے علاوہ متعدد بڑے نامور نام شامل ہیں جنہوں نے اس معاملے میں آواز بلند کی ہے، اکثر و بیشتر نے کسانوں پر ہورہے مظالم، ان پر برس رہے ڈنڈے، اور ٹریکٹرز کو توڑے جانے والی تصاویر بھی لگائی ہیں، خبر رساں ادارے تو مستقل اسے کوریج کر رہے ہیں، بحث و مباحثہ کیا جارہا ہے، یہ سب دیکھ کر ہندوستان کے بہت سے بی جے پی سپورٹر آگ بگولا ہوئے جارہے ہیں، ان میں اہم بات یہ کہی جارہی ہے کہ یہ ہمارے ملک کا اندرونی معاملہ ہے؛ ایسے میں کوئی خارجی شخص کو بولنے کا حق نہیں ہے، افسوس کی بات ہے کہ یہ صریح منافقت پر اترے ہوئے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ میں جاکر خود ہمارے وزیر اعظم نے اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگوایا تھا، تب کیوں نہیں کہا گیا کہ امریکہ کے اندرونی معاملے میں انہیں دخل نہیں دینا چاہیے.*
*صحیح بات تو یہ ہے کہ ملک میں سوجھ بوجھ اور عقل و فراست کی باتیں کرنے والے بچے ہی نہیں، اِکا دکّا مثالیں چھوڑ دی جائیں تو عمومی اندھ بھکتی اور عامیانہ تقلید کو ہی سینے سے لگانے والے پائے جاتے ہیں، ایک طرف سرکار کسانوں کے آندولن کو نہ صرف توڑنے بلکہ اسے مسخ کرنے میں لگی ہوئی ہے، تو دوسری طرف یہ مفسد عناصر لگاتار ان میں زہر گھولنے کی کوشش کئے جاتے ہیں، ٣٢/ سالہ پاپ اسٹار ریحانہ ایک نوجوان گلوکار ہیں، جنہوں نے قریب دس سال پہلے اپنا میوزیکل کیریر شروع کیا تھا، انہیں ٨/ بار گریوی اعزاز مل چکا ہے، انہیں ٹویٹر پر دس کروڑ لوگ فالو کرتے ہیں؛ جبکہ نریندر مودی کو چھ کروڑ فالو کرنے والے ہیں، وہ نہ صرف ایک سنگر ہیں بلکہ کامیاب تاجر بھی ہیں، ان کی شخصیت نوجوانوں، انٹلکچول طبقہ اور جدید فکر کو متاثر کرتی ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ جب ان کے ٹویٹ کا جواب سچن تیندلکر سے لیکر وزیر خارجہ کے دفتر سے بھی باقاعدہ ایک صفحہ پر مشتمل جواب بھیجا گیا ہے، جس میں لفاظی کی گئی ہے کہ زرعی قوانین کو لوک سبھا کے بحث و مباحثہ کے بعد پورے اتفاق پر پاس کیا گیا ہے، جو صریح جھوٹ ہے؛ کیوں کہ ابھی جانتے ہیں کہ اسے ہنگامے اور افراد تفری میں بغیر کسی اکثریت کے ہی پاس کردیا گیا تھا، اسی طرح تھنبرگ ایک چھوٹی عمر کی عالمی شہرت یافتہ ایکٹیوسٹ ہیں، جنہیں اقوام متحدہ بھی سراہتی ہے، ایسے اعلی اذہان کو درکنار کرتے ہوئے ہمارے ملک کے چند تنگ ذہن انہیں ٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب خود انہیں اور ان سے بڑھ کر ملک کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں، عالمی برادری میں رسوائی ہوتی ہے، ایک ملک جسے ہمیشہ امن و سلامتی اور باہمی احترام کا ملک جانا گیا اسے داغدار کیا جاتا ہے، کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کی حکومت آئی ٹی سِیل وغیرہ کے ذریعے باقاعدہ یہ ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں؛ تاکہ ملک میں گاندھی کے بجائے لوگ گوڈسے کو ہی اصل مانیں، اسی کی خون ریز ذہنیت کو اعلی و برتر تصور کرتے ہوئے اسوہ مانیں اور ملک کی قدیم تہذیب و ثقافت کو خیر باد کہہ دیں، اگر وہ اس خوش فہمی میں ہیں تو جان لیں کہ بہت جلد کسانوں کا نعرہ قانون خارج کرو سے سرکار خارج کرو! بھی ہوسکتا ہے.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
03/02/2021

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔