کفیل قیمت کی ادائیگی سے انکار کر دے تو کیا کریں

*⚖️سوال و جواب⚖️*

*مسئلہ نمبر 1178*

(کتاب البیوع باب الکفالۃ)

*کفیل قیمت کی ادائیگی سے انکار کر دے تو کیا کریں*

*سوال:* زید نے بکر سے ایک سامان کا سودا کیا، سامان کی قیمت کا زید نے کہا کہ فلاں شخص (عمر) کے پاس میرا پیسہ ہے آپ اُن سے اس کی قیمت لے لیجئے اور اس طرح سے بکر کی عمر سے بات ہو گئی، عمر نے بکر سے کہا کہ زید کا جو پیسہ ہے وہ ایک کاروبار میں لگا ہوا ہے، مجھے تین چار مہینے کی مہلت دیجئے ہم آپکو پیسہ دے دیں گے، اور ان تین مہینے کا جو منافع ہوگا وہ بھی دے دیں گے، اب جب تین مہینے پورے ہوئے تو اصل قیمت کا ایک چوتھائی ادا کیا اور کہا کہ 15-20 دن میں باقی دے دیں گے، لیکن اچانک اُسکے کاروبار میں نقصان ہو گیا اور پیسہ دینے سے معذرت کر لیا، اب سوال یہ ہے کہ بکر زید سے اپنا سامان واپس لے سکتا ہے کہ نہیں؟ جسکی قیمت اسکو نہیں ملی، اور جو تھوڑا سا پیسہ ملا ہے وہ واپس کرکے سودا کینسل کر سکتا ہے، صحیح صورت حال کیا ہوگی؟ (سوال بمعرفت مولانا قمر الزماں ‌ندوی کنڈہ پرتاپ گڑھ یوپی)

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

الجواب بعون اللہ الوہاب

سامان خریدنے کے بعد سامان کی قیمت مشتری (خریدار) کے ذمہ لازم ہوجاتی ہے، جس کی ادائیگی اس کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر خریدار کسی آدمی کو اس کی قیمت کی ادائیگی کا کفیل بنا دے اور وہ اسے قبول بھی کرلے تو درست ہے، لیکن اس کفالت کی وجہ سے کفیل بنانے والا ہمیشہ کے لیے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوگا؛ بلکہ کفیل اگر کسی وجہ سے وہ رقم ادا نہ کرپائے تو مکفل کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ادا کرے، چنانچہ صورت مسئولہ میں زید نے عمر کو قیمت کی ادائیگی کا ذمہ دار بنایا تھا لیکن وہ اپنی مجبوری کے باعث ادا نہیں کر پارہا ہے تو اب یہ زید کی ذمہ داری ہے کہ وہ بکر کے سامان کی ما بقیہ قیمت ادا کرے، سامان کو واپس کرنا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر فریقین راضی ہوں سامان کی واپسی پر تو اسی قیمت پر واپس کرسکتے ہیں جو خریدتے وقت متعین ہوئی تھی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*????والدليل على ما قلنا????*

(١) وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ (يوسف 72)

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الزَّعِيمُ غَارِمٌ ".

حكم الحديث: إسناده حسن. (مسند احمد رقم الحديث 22295 مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ | حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

الكفالة ضم ذمة إلى ذمة في المطالبة بشيء يعني أن يضم أحد ذمة آخر ويلتزم أيضا المطالبة التي لزمت في حق ذلك ٠ (مجلة الاحكام العدلية المادة ٦١٢)

الطالب مخير في المطالبة إن شاء طالب الأصيل بالدين وإن شاء طالب الكفيل , ومطالبة أحدهما لا تسقط حق مطالبته الآخر وبعد مطالبته أحدهما له أن يطالب الآخر ويطالبهما معا. (مجلة الاحكام العدلية ص ١٢١ المادة ٦٤٤)

قال: "ومن باع سلعة بثمن قيل للمشتري ادفع الثمن أولا"؛ لأن حق المشتري تعين في المبيع فيقدم دفع الثمن ليتعين حق البائع بالقبض لما أنه لا يتعين بالتعيين تحقيقا للمساواة. (الهداية 29/3 كتاب البيوع)

ولو تقايلا بعد القبض فهو فسخ عند أبي حنيفة، ويلزمه الثمن الأول جنسا ووصفا وقدرا، ويبطل ما شرطه من الزيادة والنقصان والتأجيل والتغيير، (الاختيار لتعليل المختار ١١/٢ كتاب البيوع باب الاقالة)

*كتبه العبد محمد زبير الندوى*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 18/10/1441

رابطہ 90291892888

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔