???? *صدائے دل ندائے وقت*????(828)
*کچھ بھی ہوجائے ہم یونہی رہیں گے __!!!*
*واقعی کچھ بھی ہوجائے مدارس و مساجد اور جمعیتیں یونہی اپنی روش پر گامزن رہیں گی، ملک جل جائے، بھن جائے، عوام مر جائے، تنکے کی طرح بکھر جائے، ملت اسلامیہ پر ڈاکہ پڑ جائے، چور لٹیرے اور اوباش گھروں میں گھس کر ماؤں اور بہنوں کو اٹھا لیجائیں، پورا سسٹم انہیں نوچ کھانے کو بے قرار ہوجائے، مگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، احتجاجی مظاہرے خوب ہورہے ہیں، عورتیں اور بچے، جوان اور بوڑھے سبھی سڑکوں پر ہیں، ملک کا سوال ہے، ملت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے وجود کا مسئلہ ہے، اب فاسشزم کھلے عام پیر پسار چکا ہے، فاشسٹ طاقتوں نے ایک ایک کر کے نوالہ بنانا شروع کردیا ہے، جمہوریت کا ہر ایک حربہ آزمایا جارہا ہے، امن و آشتی کو خطرے میں ڈال کر پولس کے ڈنڈے اور قوانین استعمال کرکے انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر مارا جارہا ہے، ناجائز مقدمات تھوپ کر پس زنداں پٹکا جارہ ہے، قوم کے نوجوان جیلوں کی دہلز چوم رہے ہیں، آنسو گیس اور گولی و چھرے کھا رہے ہیں، نہتھے ہو کر بھی اپنی تعلیم گاہوں میں، لائبریریز میں، پارکوں میں اور محلوں میں غرض ہر جگہ جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں، اب تک ہر ایک کی جان پر بن آئی ہے، ابھی تک سی اے اے کا کچھ نہ ہوسکا، لاکھ کاوشوں اور کئی شہادتوں کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہونا چاہتی، گویا ان کے نزدیک عوام کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے.*
*البتہ بعض صوبوں نے سی اے اے کے خلاف ریزولوشن پاس کیا ہے، این آر سی پر بھی یہی حال ہے تو وہیں این پی آر کا بھوت سر پر کھڑا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ ہمی سے بنائی گئی سرکار ہم سے ہماری شہریت کا سوال کرے گی؛ لیکن سبھی خموش ہیں، چند ایک صوبے اگرچہ اس خیر میں پیش قدمی کر گئے اور اپنے اسٹیٹ میں اس کام پر روک لگادی ہے، مگر جطرہ ٹلا نہیں ہے، حکومت اپنے بیانوں پر قائم ہے، بلکہ چند روز قبل مودی جی ایک عام پروگرام میں اپنی کامیابی گنواتے ہوئے کشمیر، تین طلاق، سی اے اے وغیرہ کا تذکرہ کیا اور یہ کہہ دیا کہ ابھی تو بہت کچھ باقی ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ یکساں سول کوڈ اور ہندو راشٹر کا راستہ ہی اگلی منزل ہے، پورے ملک میں بے چینی ہے؛ لیکن ایک سکوت اور جمود ہے تو بس وہ مدارس و مساجد کے لوگ ہیں، جنکی شکل وشباہت پر فرشتے جان دیدیں، ان کی عبادات و ریاضتوں پر سبھی رشک کریں، کہتے ہیں کہ اگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں...... مگر ان پاکباز جانوں کے سامنے روتی، بلکتی انسانیت کسی معنی میں نہیں ہے، وہ اب تک اس بات کو اہمیت نہیں دیتے؛ کہ ہمارا وجود ہے یا مٹ گیا، اکابرین کی قربانیوں سے حاصل کی گئی آزادی کا کوئی فائدہ ہے یا ختم ہوگیا، ہمیں چین سے جینے اور سکون سے مرنے کی اجازت ہے یا نہیں___؟ انہیں قطعا پرواہ نہیں ہے، الا ماشاءاللہ بعض مقدس روحوں کا استثنا کیا جاسکتا ہے، مگر عموم کا حال یہی ہے.*
*موجودہ اکابرین کی ساری کاوشیں بس یہی ہیں کہ اگر خوب شور وشرابہ ہوجائے تو کانفرنس بلائی جائے، زوردار تقریر کی جائے اور سبھی گھر کو یونہی واپس ہوجائیں، نام نہاد ریزولوشن پاس کردیا جائے، جس سے ایک مچھر کوبھی فرق نہ پڑے یا پھر بیانیہ جاری کردیا جائے جسے انہیں کے لوگ پڑھنے سے کتراتے ہوں، تو وہیں مدارس کی کیفیت پر افسوس ہوتا ہے، ان دنوں ملک کے حالات سامنے رکھئیے اور ان کے یومیہ پروگرامس کو دیکھئے__! خدا کی قسم یقین ہوجائے گا کہ بقول سیدی علی میاں ندوی رحمہ اللہ یہ اپنے جزیروں میں قید ہیں، سالانہ جلسے، دستار بندی، حضرت و شیوخ کی آمد اور ان سب میں چندے سے لائے گئے صدقے و خیرات کا ناجائز استعمال وغیرہ...... کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایک مریض وینٹیلیٹر پر لیٹا ہو اور خود ڈاکٹر اس کے قریب بیٹھ کر موج و مستی کرے، اس کے علاج کے نام پر سرمستی میں ڈوب جائے، مزید یہ کہ وہ اسی کو علاج گردانتا پھرے، ہر دوسرے دن سوشل میڈیا کا جائزہ لیجیے یا خود اپنے اردگرد جھانکئے اور دیکھئے کہ ایک طرف قوم کی خواتین نے زرہ باندھ رکھی ہے، سینہ سپر ہوگیی ہیں، تو دوسری طرف مولویوں کے جمگھٹے میں سکتہ طاری ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے، وہ کسی اگلی دنیا کے باشندے ہیں، یا انہوں نے اسی دنیا میں اک دنیا بسا لی ہے.*
*تو وہیں یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اگر اس طبقے میں محض سکوت بھی رہتا، اور زرخرید غلاموں کا سا رویہ نہ پایا جاتا تو شاید اسے گاندھی کے ملک میں خموش احتجاج مان لیتے؛ مگر یہ تو اپنے دائروں چراغاں کئے ہوئے ہیں، ان کے لباس کی کرچی تک نہیں ٹوٹتی، ان کے سربراہ بالخصوص مدارس کے اعلی حکام کے آرام میں و تعیش میں کوئی کمی نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ ان باتوں سے اتفاق نہ رکھتے ہوں..... اگر ایسا ہے تو یقیناً آپ ان حقیقی تصاویر سے اب بھی بہت دور ہیں...... خدا جانے یہ کونسا دین اور کس رسول کے متبع ہوگئے ہیں، جن کے سامنے انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ہم نے یہاں تک دیکھا ہے کہ قریب سے احتجاجاً ریلیاں نکل رہی ہیں اور یہ اپنے سمیناروں میں مصروف ہیں، یا علاقے میں احتجاج پوتا ہے؛ لیکن وہ اس پر سوال کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھ کر کیوں نہ کیا گیا__؟ مگر ہاں __ مجلس میں تقریر رکھ دی گئی تو وہی سب کچھ ورنہ پھر گھر اور مسجد کی زینت. خدا خیر کرے___ ایسی قوم و ملت کا جن کے زعماء اپنا تقدس تو قائم کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن سب سے مقدس انسانی جان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کرتے، وہ گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں، دنیا جائے جہاں جانا ہے ہم تو اسی روش پر قائم رہیں گے___ اگر یہ بات ہے تو یاد رکھیں ایک دن آگے کہ آپ کے آشیانے بھی جلیں گے، ہوا کسی کی یار نہیں ہوتی، آپ کا خرمن تقدس بھی خاک ہوجائے گا، آپ بھی مسموم فضا میں گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے؛ کیونکہ دنیا ایک ہے، انجام بھی ایک ہے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
19/02/2020