???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1037)
*کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی __!!*
جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
*آج علمی و تحقیقی میدان کے عظیم شہسوار، قدیم صالح اور نافع کی تعبیر، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے عظیم سپوت، مؤقر سیرت نگار، تاریخ اسلامی کے محقق اور علامہ شبلی نعمانی و سید الطائفہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمھمااللہ کے حقیقی جاں نشین پروفیسر یسین مظہر صدیقی (١٩٤٤_ ٢٠٢٠) بھی رحلت فرما گئے، آپ موجودہ وقت میں اسلاف کی میراث تھے، تصنیفات و تالیفات بالخصوص سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف گوشوں پر اردو، عربی، انگلش زبان میں کتابیں موجود ہیں، آپ کی وفات علمی دنیا کا بڑا خسارہ ہے، اللہ آپ کو غریق رحمت کرے؛ بلاشبہ علماء کرام کا یوں یکے بعد دیگرے رخصت ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اس سلسلہ میں ایک روایت ملاحظہ ہو! عن عمروبن العاص قال: سمعت النبی ﷺ۔یقول: إن اللہ لایقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رٶسا جھالا فسٸلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا __ (صحیح بخاری:١٠٠۔صحیح مسلم:٦٩٧٤۔ترمذی:٢٦٥٢- ابن ماجہ:٥٢)۔بخاری ترمذی اور ابن ماجہ کے الفاظ یکساں ہیں؛ البتہ مسلم شریف میں قدرے الفاظ تبدیل ہیں۔مفہوم ایک ہی ہے: "أن النبی ﷺ قال:إن اللہ لاینتزع العلم من الناس انتزاعا ولکن یقبض العلماء فیرفع العلم معھم ویبقی فی الناس رٶسا جھالا یفتونھم بغیرعلم فیضلون ویضلون __ ؛جبکہ ترمذی میں ہے:حتی إذالم یترک عالما۔اتخذ الناس __ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی جب علم کو اٹھاۓ گا، تو اس کاطریقہ یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں اوراپنے بندے کے سینے سے اسے کھینچ لے؛ بلکہ اللہ علم کو اس طرح اٹھاۓ گا کہ علمإ کرام کو روۓ زمین سے اٹھالے گا۔ اس طرح علم بھی اٹھ جاۓ گا۔۔یہاں تک کہ کوٸی عالم زمین پرباقی نہیں بچے گا، تو لوگ جہلاء کو اپنا سردار بنالیں گے اور انہیں سے مسا ٸل دریافت کریں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے؛ نتیجہ یہ ہوگا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمرہی کے دلدل میں ڈھکیل دیں گے۔*
*یقیناً موت سے کسی کی رستگاری نہیں، دنیا میں انسان کا وجود بلکہ کسی بھی جاندار کا پیدا ہونا، یہ خود اس کی موت کا پتہ ہے، ہمیشہ ہمیش کی ذات صرف باری تعالیٰ کی ہے، وہی خالق و مالک ہے اور وہی تاابد کا حق رکھتا ہے؛ لیکن اگر پے درپے موت کا سلسلہ بندھ جائے، مصائب تہہ بہ تہہ آنے لگیں، عام وبا کے ساتھ لاک ڈاؤن، معاشی بحران، زندگی کی کسک اور دنیا کی بے بودگی کے ساتھ ساتھ اہل علم اپنا راستہ طے کرنے لگیں، جن لوگوں سے تاریکی میں روشنی کی امید ہو، جو امت کے دردمند، سوزمند اور محبت و وفا کی مثال ہو، جنہیں دیکھ دیکھ دنیا اپنی سسکیوں کے درمیان ٹھنڈک پاتی ہو، اپنی آہوں اور بے چینیوں کے بیچ سکون محسوس کرتی ہو، دھوپ میں چھاؤں اور برسات میں چھت، غم و اندوہ میں ایک تکیہ، ٹوٹتی امیدوں میں زندگی کی جوت جانتے ہوں وہ بھی دامن چھوڑنے لگیں تو کیسے صبر آئے؟ اور ایسے زمانہ کو کس لقب سے یاد کیا جائے؟ قرب قیامت کی پیشین گوئیوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، کیونکہ علماء اٹھا لئے جائیں گے، پچھلے کئی مہینوں سے علمائے کرام کی وفات اور ان کی یکے بعد دیگرے موت نے کچھ یہی محسوس کروایا ہے؛ کہ شاید قیامت بس سر پہ ہے، کبھی بھی صور پھونکی جاسکتی ہے، دنیا کی تہہ لپیٹی جاسکتی ہے، اور عالم رنگ و بو کا دفتر بند کیا جاسکتا ہے، ذرا ایک وقت کیلئے ٹھہرئے اور ہندو پاک ہی نہیں، عالم عرب بلکہ عالم اسلام میں وقوع پذیر علماء کی موتوں کا جائزہ لیجئے! آپ پائیں گے کہ برکتوں کے انبار بکھرے جاتے ہیں، جنہیں علم وعمل کا گنجینہ سمجھا جاتا تھا، جو محبت و درد کے داعی مانے جاتے تھے، جو زمانہ کیلئے دیپ ہوتے تھے وہ بجھے جاتے ہیں، اگر فہرست بنائی جائے تو سکت نہیں کہ ہر ایک کو لکھ سکیں، قلم برداشت نہیں کرتا کہ کیسے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر پاروں کو الوداع لکھا جائے، بالخصوص مدارس و مکاتب اور دینی تحریکات کی دبتی آوازیں، مشکل حالات اور ناسازگار مواقع کی راہ میں سب کچھ منتشر ہوتا ہوا پایا جائے تو کون اپنے سرداروں کو رخصت کرنے کی جسارت کرے گا__؟*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
15/09/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔