???? *صدائے دل ندائے وقت*????(841)
*کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ__!!*
*رواں حکومت کا ظلم اب نہ شہادت کا طلبگار ہے، نہ کسی مدعی کی ضرورت ہے، آستین کا لہو خود ہی سراغ بن چکا ہے، خون آلود ہاتھوں سے گند آرہی ہے، زبان و دل سے خون رس رہا ہے، بے گناہوں کی بے گناہی چیخ رہی ہے، طاقت اور منصب کے نشے میں مگن قاتلوں کو پکار رہی ہے، کہ نکلو اپنے ایوانوں سے اور قصر سلطانی سے___ دیکھو تم نے کیا بویا اور کاٹو گے__! ذرا جھانکوں تو سہی کہ کس طرح انسان انسانیت پر بے بس ہوگیا ہے، دہلی فسادات کی وارداتوں کا آنکھوں دیکھا حال جس نے دیکھا وہ تاب نہ لا سکا، جس نے وڈیوز دیکھیں وہ بھی صبر نہ کر سکا، جس نے سنا اس کا دل بیٹھ گیا __ آخر کیسے یقین ہوجائے کہ اب انسان نالیوں سے برآمد ہورہے ہیں، دسیوں لاشیں کیچڑ کی سڑاند سے نکالی جا چکی ہیں، بدبودار حالت میں اور بے حرمتی کی ہوئی لاشوں کو کون دیکھ سکتا ہے، وہ دیکھو__ ایک آدمی اپنی بیوی اور بچے کے انتظار میں ہے، پلکیں بچھائے ہوا ہے، وہ ضعیف و کمزور ہے، لاچار ہے؛ لیکن انتظار ہے کہ وے آئیں گے، اور اس کی ضعیفی کا سہارا بنیں گے، وہ فوٹ پاتھ پر پڑا ہوا ہے، سرد ہوائیں لگتی ہیں، مگر برداشت کرتا ہے، اپنوں کیلئے روتا ہے، گہار لگاتا ہے؛ لیکن کوئی کہاں سننے والا ہے__ ایک طرف اس دکھیاری کی آہ بھی سنئے __ وہ ایک ماں ہے، جو اپنے بچے کے ساتھ بقیہ گھرانے کولے لوگوں کو ڈھونڈ رہی ہے، سارے گم ہوگئے ہیں، پروانہ وار بھٹکتی ہے، کبھی اس شاہراہ، کبھی اس کوتوالی، کبھی اس اسپتال تو کبھی اس در تو اس در__ کوئی نہیں سنتا، کوئی سراع نہیں دیتا، کس سے پوچھے کس کہیں __؟*
*نیوز ایجنسیاں کوئی خبر نہیں لیتیں، کیونکہ وہ سرکار کے تلوے چاٹنے اور اس پر لگے لذیذ و ذائقہ دار کیک کھانے میں مصروف ہیں، مگر عالمی ادارے جب رپورٹنگ کرتے ہیں تو دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، خود کو کوسنے کا من کرتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ نوجوانوں کو پولس نے بےدردی سے پیٹا، کئی میٹر سے گھسیٹ کر لائے، اور متعدد کو ایک جگہ اکٹھا کر کے مارا، ساری حیوانیت پار کردی، حتی کہ انہیں نیم جان کرنے بعد راشٹر یہ سنگیت گانے کو کہہ رہی ہے، یہ ایسا جارحانہ اور قاہرانہ اقدام لگتا ہے؛ کہ کسی بھی شریف کیا ذلیل ترین شخص کا بھی خون کھول جائے اور وہ کچھ کر بیٹھے__! ذرا سوچئے! جن پر بیتی ہوگی ان پر قیامت کی کونسی سی گھڑی ہوگی، چنانچہ جب ان میں سے ایک سے پوچھا گیا، تو اشکوں کی جھریاں لگی ہوئی تھیں، وہ روتا تھا اور داستان بیان کرتا تھا، وہ بھارت کی تاریخ اور بربریت پر ماتم کناں تھا، وہ بار بار اپنی بے بسی کی دہائی دیتا تھا، حتی کہ اسی خوف سے اس نے علاج کروانے سے بھی انکار کردیا؛ کیونکہ وہ باہر نکلنا نہیں چاہتا، جبکہ ان میں سے ایک نے زخموں کی تاب نہ لاکر جان ہی گنوادی. ابھی قصہ ختم نہیں ہوا، ادھر دھیان دیجئے __ تو ان میں ایک ماں اور نظر آتی ہے، جو اپنے جوان بیٹے کی لاش لئے بلک رہی ہے، اسے کون سمجھائے کہ بدنصیب عورت__! تیرا ظاہری سہارا چھن گیا، ظالموں نے تیرے بڑھاپے کی لاٹھی توڑدی، اب تو بد دعا کرنا، رونا اور گڑ گڑانا بند کر دے؛ کیونکہ تیری فریاد عالم بالا کے سوا کہیں بھی نہ سنی جائے گی.*
*چلتے چلتے ایک اور گھرانہ ملتا ہے، جس میں چہل پہل بھی کبھی تھی، جہاں بچیوں کے شور غل سے گھر کا آنگن چہکتا تھا؛ لیکن اب ایک باپ اپنی آٹھ بیٹیاں چھوڑ کر آخرت سدھار گیا، وہ مصوم کلیاں بھی اس میں شامل ہیں، جنہوں نے ابھی صحیح سے آنکھیں بھی نہیں کھولی ہیں، وہ قسمت کی ماری بچیاں___! ظالموں نے انہیں شفقت پدری سے محروم کردیا، انہیں بے یار ومددگار کردیا، جن کی کفالت پر جنت کا وعدہ تھا، جن کے وجود سے دنیا کی مہک ہے، انہیں کو آنسوؤں کا گھونٹ پلا دیا، یہ کیسے بے رحم تھے، یہ کیسے ظالم تھے _؟ اس میں وہ نظارہ بھی روح تڑپاتی ہے جب ایک معصوم بچہ اپنے والد کی لاش دیکھ کر حواس باختہ ہے، اور اپنے مستقبل و حال سے بے پرواہ غم کی دنیا سمیٹ رہا ہے، جہاں دیکھو وہی بدحالی ہے، ہر کہیں بھائی اپنے بھائی کو ڈھونڈتا ہے، بیوی اپنے شوہر کوتلاش کرتی ہے، سبھی مردہ گھروں میں جاکر چہرے کھول کھول کر دل تھام کر چادر کشائی کرتے ہیں اور پھر کسی کا دل بیٹھ جاتا ہے، تو کسی کی دھرکن پھر سے تیز ہوجاتی ہے؛ کیونکہ مزید چادریں ہٹانی ہیں، لوگوں نے اپنے آشیانے بھی چھوڑ دئے ہیں، اب وہ کہیں بھی جائیں لیکن دلی والوں کی دلی انہیں راس نہ آئے گی، جب دل ہی مرجھا جائے، جب دل میں کوئی رہنے والا نہ ہو تو اس ویرانی کا بوجھ لیکر کہیں صحرا میں یا کسی دور دراز علاقے میں بس جانا ہی حل ہے.*
*آہ __ یہ کیسا ہندوستان ہے؟ یہ کیسی تہذیب اور کیسی رواداری ہے_؟ جس کی دہائی دیتے ہیں، جس ہر ناز کرتے ہیں اور آج اسی پر شرمندگی ہوتی ہے، جہاں انسان کی قدر نہ ہو اگر وہ جنت بھی ہو تو اسے ٹھکرادیا جائے گا، انسان سب سے مقدس ہے، سب سے اعلی ہے، دنیا اسی کیلئے ہے، یہ دنیا کا امین ہے، بھلا کس نے اس کی امانت میں خیانت کی ہے__!! کوئی اور نہیں موجودہ حکومت ہے، یہ رواں حکومت کا ظلم بھی کیا ہی ہنرمندی کے ساتھ ہے، واقعی دست وپا پر نہ کوئی چھینٹ ہے، نہ کوئی نشان ہے، اتنا کچھ ہوگیا؛ لیکن کوئی کسی چیز کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتا ہے، کسی پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہے، بس برق گری ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ہی گری ہے، اس موقع پر فیض احمد فیض صاحب کی یہ نظم یاد آتی ہے، اس کی معنویت دیکھئے، انداز بیان پر غور کیجئے ___ اس وقت دل کے درد کی نمائندگی کیلئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہے، غور سے پڑھیں ___ دل تھام کر پڑھیں:*
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانۂ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو کسی کو
بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
03/03/2020