کیا عورت دورانِ حیض قرآن پڑھ سکتی ہے

????سوال وجواب????

????مسئلہ نمبر 1266????

(کتاب الطھارۃ، باب الحیض)

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کے ایک فتوے کا تحقیقی جائزہ

سوال: کیا مندرجہ ذیل فتویٰ درست ہے؟ خواتین اس پر عمل کرسکتی ہیں؟ (یعقوب حسین سید، چپلون، رتناگری، مہاراشٹر)

کیا عورت دورانِ حیض قرآن پڑھ سکتی ہے؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سوال:
عام طور سے بیان کیا جاتا ہے کہ دورانِ حیض عورت قرآن نہیں پڑھ سکتی ۔ مجھے بھی اب تک یہی معلوم تھا ، چنانچہ اسی پر میں عمل کرتی تھی ، لیکن جب سے میں نے ایک عالم ِدین کا یہ بیان سنا ہے کہ بعض فقہاء نے عورت کے لیے دورانِ حیض قرآن پڑھنے کی اجازت دی ہے ، اس وقت سے تشویش میں مبتلا ہو گئی ہوں کہ کیا بات صحیح ہے؟
براہِ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں کہ دورانِ حیض عورت قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟

جواب:
اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ احناف ، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے دورانِ حیض قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَقرَأ الحَائِضُ وَلَا الجُنُبُ شَیئاً مِّنَ القُرآنِ (ترمذی: 131، ابن ماجہ: 595)
(حائضہ عورت اور جنبی (مرد و عورت) کچھ بھی قرآن نہ پڑھیں ۔) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ۔ تمام محدثین نے اس کا ضعف بیان کیا ہے ۔ امام ترمذیؒ نے یہ حدیث درج کرنے کے بعد لکھا ہے : ” اس موضوع کی روایت حضرت علیؓ سے بھی مروی ہے ۔ ابن عمرؓ کی اس روایت کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش عن موسیٰ بن عقبہ عن نافع عن ابن عمر کی سند سے جانتے ہیں ۔ صحابہ ، تابعین اور بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہلِ علم ، مثلاً سفیان ثوریؒ، ابن مبارکؒ، شافعیؒ، احمدؒ، اسحاق کی یہی رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حائضہ اور جنبی قرآن نہیں پڑھ سکتے ، ہاں آیت کا ٹکڑا یا لفظ زبان سے ادا کر سکتے ہیں ۔ البتہ یہ حضرات جنبی اور حائضہ کے لیے سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ جیسے کلمات کہنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ میں نے محمد بن اسماعیل (بخاریؒ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسماعیل بن عیاش اہلِ حجاز اور اہلِ عراق سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک اگر اسماعیل بن عیاش ان لوگوں سے روایت کرنے میں تنہا ہو تو اس کی روایت ضعیف ہوگی ۔“ یہ حضرات یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ حیض اور جنابت کا شمار ’حدثِ اکبر‘(بڑی ناپاکی) میں ہوتا ہے ۔ صحیح احادیث میں حالت ِجنابت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ حیض کی ناپاکی جنابت سے بڑھ کر ہے ، اس لیے جو حکم جنابت کا ہے وہ حیض کا بدرجۂ اولیٰ ہونا چاہیے۔ ناجائز کہنے والوں کے نزدیک تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے ، جس سے جواز کی بعض صورتوں کا اشارہ ملتا ہے ۔ احناف کہتے ہیں کہ حائضہ عورت آیت ِ قرآنی کا کوئی ٹکڑا ذکر اور دعا کے طور پر پڑھ سکتی ہے ، اسی طرح معلّمہ دورانِ حیض بچوں کو پڑھانے کے لیے آیت کا ایک ایک لفظ الگ الگ کرکے پڑھا سکتی ہے ۔ شوافع کہتے ہیں کہ حائضہ عورت بغیر زبان ہلائے دل میں قرآن پڑھ سکتی ہے ۔حنابلہ کہتے ہیں کہ پوری آیت تو پڑھنا جائز نہیں ، البتہ وہ آیت کا ٹکڑا پڑھ سکتی ہے ۔ اسی طرح وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، الحمد للہ رب العالمین ، انا للہ و انا الیہ راجعون یا سواری کی دعا پڑھ سکتی ہے ۔ مالکیہ کے نزدیک حائضہ عورت مصحف چھوئے بغیر قرآن پڑھ سکتی ہے ۔ ان کا استدلال درج ذیل احادیث سے ہے :

حضرت علی بن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں :
اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یُقرِءُنَا القُرآنَ وَ لَا یَحجُبُہُ عَنِ القُرآنِ شَیئی لَیسَ الجَنَابَۃِ
(ابوداؤد:299،ترمذی:146،نسائی:265، ابن ماجہ:594)
(رسول اللہﷺ ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔ جنابت کے علاوہ کوئی چیز آپ کو قرآن پڑھنے سے نہیں روکتی تھی ۔)
مشہور حدیث ہے کہ سفر حج کے دوران ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا ۔ وہ رونے لگیں کہ اب حج نہیں کر پائیں گی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں تسلی دی ۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا :
فَاقضِي مَا یَقضِي الحَاجُّ، غَیرَ أن لَا تَطُوفِي بِالبَیتِ
(بخاری:294،مسلم:1211)
(وہ سب کرو جو حاجی کرتا ہے ، بس طواف نہ کرو۔)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حائضہ عورت کو صرف طواف سے روکا ہے ، جو نماز کے حکم میں ہوتا ہے ، دیگر کاموں کی اجازت دی ہے ۔ مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنابت اور حیض دونوں ’حدثِ اکبر‘ میں سے ہیں ، جو غسل کا متقاضی ہوتا ہے ، لیکن دونوں کی حالت یکساں نہیں ہے ۔ جنابت کی مدّت مختصر ہوتی ہے ، جب کہ حیض کی مدّت طویل ہوتی ہے ۔اس مدت میں وہ قرآن نہ پڑھنے سے اسے بھول سکتی ہے ، اس لیے اس سے اسے روکنا مناسب نہیں ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ کی بھی یہ رائے ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ”حائضہ عورت کو قرآن پڑھنے سے روکنے کے سلسلے میں صریح اور صحیح نصوص نہیں ہیں۔۔۔ عہد نبوی میں عورتیں حیض سے ہوتی تھیں تو انہیں اللہ کے رسول ﷺ قرآن پڑھنے سے روکتے تھے نہ ذکر و دعا سے۔“ علامہ شوکانی ؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے ۔ انھوں نے ممانعت پر دلالت کرنے والی حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ”یہ حدیث اسماعیل بن عیاش سے مروی ہے ۔ اہل ِحجاز سے اس کی روایات ضعیف ہوتی ہیں اور یہ روایت بھی انہی میں سے ہے۔“ اس کے بعد متعدد محدثین کا حوالہ دیا ہے جنھوں نے اسے ضعیف کہا ہے۔آگے لکھا ہے : ” اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورت قرآن نہیں پڑھ سکتی ۔ متعدد حضرات کی یہی رائے ہے ، لیکن اس کی دلیل کے طور پر اس حدیث کو پیش کرنا درست نہیں ۔اس بنا پر بغیر کسی دلیل کے حائضہ عورت کے لیے قرآن پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔ “ (نیل الاوطار ، محمد بن علی شوکانی ،القدس للنشر و التوزیع ، القاہرۃ ، 2012ء/1432ھ ،263/1_264) میرے نزدیک یہ رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے کہ عورت دورانِ حیض قرآن پڑھ سکتی ہے ۔

[ شائع شدہ ماہ نامہ زندگی نو ، نئی دہلی ، ستمبر 2020 ]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا سوال وجواب میں جو تفصیلات ذکر کی گئی ہیں اور فقہاء کرام کے جو نقاط نظر بیان کئے گئے ہیں وہ ان کے مقلدین کے لئے قابلِ عمل ہیں، اس نقطہ نظر سے جو عورت فقہ حنفی اور فقہ شافعی و حنبلی کی مقلدہ ہے وہ حالت حیض میں قرآن نہیں پڑھ سکتی ہے اور جو خاتون فقہ مالکی پر عمل پیرا ہے وہ فقہ مالکی پر عمل کرے گی، تاہم چونکہ سائلہ فقہ حنفی کو ماننے والی معلوم ہوتی ہے اور سوال کا جواب دینے والے تو حنفی المسلک ہیں ہی، اس کے باوجود انہوں فقہ حنفی سے ہٹ کر فقہ مالکی کے مطابق اپنی رائے قائم کی ہے، اور اسے زیادہ قوی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی اس خاتون کو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ وہ حالت حیض میں قرآن پڑھ سکتی ہے، یہ بات محل نظر ہے، نیز سب سے اہم بات یہ ہے مجیب نے فقہ حنفی کے مستدلات کی تردید و تضعیف تو کردی ہے مگر جس بات کو زیادہ قوی سمجھا ہے اس پر کوئی صحیح صریح دلیل نہیں قائم کی ہے، اپنے استدلال میں جو پہلی روایت پیش کی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو حائضہ خواتین پر فٹ نہیں کیا جاسکتا ہے نیز وہ روایت بھی ضعیف ہے(١) بلکہ مزید گہرائی سے دیکھا جائے تو فقہ حنفی کی تائید نظر آئے گی کیونکہ حیض و نفاس سے مرد حضرات منزہ ہوتے ہی ہیں اس میں قرآن نہ پڑھنے کی علت جنابت کو قرار دیا گیا ہے اور جنابت حدث اکبر ھے اور حیض بھی حدث اکبر ھے اس لئے دونوں میں تو یکسانیت نظر آرہی ہے تو اس سے تو فقہ حنفی کی تائید ہوئی آپ کا مدعا باطل نکلا، چنانچہ اسی روایت کی تشریح میں صاحب عون المعبود نے صراحت لکھا ہے کہ جس طرح جنبی کے لئے قرآن پڑھنا صحیح نہیں ہے اسی طرح حائضہ کے لئے بھی پڑھنا صحیح نہیں ہے، ایسا لگتا ہے صاحب تحریر نے صرف حدیث دیکھی ہے اور شرح دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حالانکہ وہ دیکھتے تو وہی بات ملتی جو احقر نے لکھی ہے(٢)۔

اس سلسلے میں جو دوسری روایت پیش کی ہے وہ بھی حائضہ کے تلاوت قرآن کے باب میں صریح نہیں ہے، اس میں کہیں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ کو تلاوت قرآن کی باقاعدہ اجازت دی ہو(٣)، بلکہ اس کا تعلق حج کے مخصوص افعال سے ہے چنانچہ احادیث بخاری کے سب سے بڑے شارح اور علم حدیث کے امام علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے خود اسی حدیث کی تشریح میں یہ الفاظ لکھے ہیں قوله: ( غير أن لا تطوفي بالبيت ) زاد في الرواية الآتية: " حتى تطهري " وهذا الاستثناء مختص بأحوال الحج لا بجميع أحوال المرأة، وسيأتي الكلام على هذا الحديث بتمامه في كتاب الحج إن شاء الله تعالى. (فتح الباري بشرح صحيح البخاري رقم الحديث 294 كِتَابٌ : الْحَيْضُ | بَابٌ : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْحَيْضِ ؟)، کہ یہ بات حج کے افعال کے ساتھ خاص ہے اس کو ہر جگہ فٹ نہیں کیا جاسکتا ہے، نیز جب یہ روایت تلاوت قرآن کے سلسلے میں صریح نہیں ہوئی تو زیادہ سے زیادہ اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب دوسری صریح روایت موجود ہے تو یہ قیاس بے معنی ہے(٤)۔

تیسری بات جو حدث اکبر کی لکھی ہے وہ بالکل درست ہے لیکن جنابت اور حیض میں جو فرق بیان کیا ہے وہ ادنی دماغ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کس قدر بے بنیاد فرق ہے، عام طور پر خواتین حیض کی عمر کو پہنچتے پہنچتے قرآن اتنا سیکھ لیتی ہیں کہ اگر وہ چند دن نہ پڑھیں تو قرآن پڑھنا بھولتی نہیں ہیں، خود اپنے ہندوستان میں دیکھ لیجیے عموما خواتین گیارہ مہینے قرآن نہیں پڑھتیں مگر رمضان میں سب پڑھ لیتی ہیں اور پڑھنا نہیں بھولتیں، لہذا یہ فرق بے معنی ہے۔

علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ بات تو لکھ دی گئی ہے کہ حائضہ عورت کو قرآن پڑھنے سے روکنے کے سلسلے میں صریح اور صحیح نصوص نہیں ہیں، ٹھیک یہی سوال علامہ ابن تیمیہ سے ہے کہ وہ ایک بھی صحیح صریح روایت پیش کردیں جس میں حائضہ کو قرآن پڑھنے کی اجازت دی گئی ہو، علامہ ابن تیمیہ تو خیر باحیات نہیں چنانچہ یہ سوال مفتی مذکور سے ہے کہ آپ ہی کوئی ایک صحیح صریح روایت پیش فرمادیں جس میں حائضہ کو قرآن پڑھنے کی اجازت دی گئی ہو۔

اسی طرح عہد نبوی میں عورتیں حیض سے ہوتی تھیں اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھنے سے نہیں روکتے تھے، یہ بات بلا حوالہ لکھی گئی ہے، پہلی بات تو یہی نکتہ محل تحقیق ہے کہ حالت حیض میں اس زمانے میں خواتین قرآن پڑھتی تھیں یا نہیں؟ اگر پڑھتی تھیں تو ایک دو مثالیں پیش کیجیے کہ فلاں صحابیہ نے حالت حیض میں قرآن پڑھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا مگر آپ نے منع نہیں کیا۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے کوئی خاص بات نہیں پیش کی گئی ہے یہ وہی ہے جو انہوں نے شروع میں پیش کیا ہے، کہ یہ روایت ضعیف ہے، ٹھیک ہے یہ روایت ضعیف ہے ہمیں بھی تسلیم ہے مگر اس میں شدید ضعف نہیں پایا جاتا ہے نیز یہ روایت اپنے باب میں صریح ہے، جب کہ آپ کی پیش کردہ روایات ایک بھی صریح نہیں ہیں بلکہ فقہ حنفی کی مؤید ہیں، اب رہی یہ بات کہ یہ روایت ضعیف ہے، تو اس موضوع کی روایت حضرت علی سے بھی ہے جیساکہ امام ترمذی نے صراحت کردی ہے، گویا اس کی تابع روایت موجود ہے، اور اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جب کسی ضعیف روایت کی توابع روایات موجود ہوں تو اس کے ضعف میں کمی آجاتی ہے، دوسرے یہ کہ تین جلیل القدر فقہاء امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل امام شافعی جیسے لوگوں نے اس روایت کو قابل عمل اور قابل استدلال مانا ہے، تیسرے یہ کہ امام ترمذی کے بقول سفیان ثوری، ابن مبارک، امام اسحق بن راہویہ وغیرہ نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے، چوتھے یہ کہ حیض حدث اکبر ھے اس کو دنیا کے تمام فقہاء تسلیم کرتے ہیں اور حدث اکبر میں قرآن کی تلاوت درست نہیں ہے، اتنی چیزیں جمع ہوجانے کے بعد حائضہ کے تلاوت قرآن کی اجازت دینے کو قوی سمجھنا قطعاً درست نظر نہیں آتا، بطورِ خاص جب آپ کے پاس ایک بھی صحیح صریح روایت نہ ہو تو یہ بات اور ہی بے معنی نظر آتی ہے، اس لیے زیادہ درست نقطہ نظر اور قوی رائے وہی ہے جو امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل، سفیان ثوری عبد اللہ بن مبارک اور اسحق بن راہویہ وغیرہ کی متفقہ رائے ہے(٥)، اس لیے خواتین کو اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

????والدليل على ما قلنا????

(١) كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنَ الْخَلَاءِ، فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ، وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ.
حكم الحديث: ضعيف. (سنن النسائي رقم الحديث ٢٦٥ كِتَابُ الطَّهَارَةِ | بَابٌ : حَجْبُ الْجُنُبِ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ)

(٢) قال الخطابي: في الحديث من الفقه أن الجنب لا يقرأ القرآن وكذلك الحائض لا تقرأ لأن حدثها أغلظ من حدث الجنابة. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٣٢٩ كِتَابُ الطَّهَارَةِ | بَابٌ : فِي الْجُنُبِ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ)

(٣) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يَقُولُ : سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ : خَرَجْنَا لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قَالَ : " مَا لَكِ أَنُفِسْتِ ؟ " قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : " إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ ". (صحيح البخاري 294 كِتَابٌ : الْحَيْضُ | بَابٌ : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْحَيْضِ ؟)

(٤) قوله: ( غير أن لا تطوفي بالبيت ) زاد في الرواية الآتية: " حتى تطهري " وهذا الاستثناء مختص بأحوال الحج لا بجميع أحوال المرأة، وسيأتي الكلام على هذا الحديث بتمامه في كتاب الحج إن شاء الله تعالى. (فتح الباري بشرح صحيح البخاري رقم الحديث 294 كِتَابٌ : الْحَيْضُ | بَابٌ : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْحَيْضِ ؟)

(٥) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ ".
وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ. حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا يَقْرَأُ الْجُنُبُ وَلَا الْحَائِضُ ". وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، قَالُوا : لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا إِلَّا طَرَفَ الْآيَةِ وَالْحَرْفَ وَنَحْوَ ذَلِكَ. وَرَخَّصُوا لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ فِي التَّسْبِيحِ وَالتَّهْلِيلِ. وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ : إِنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ عَيَّاشٍ يَرْوِي عَنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، كَأَنَّهُ ضَعَّفَ رِوَايَتَهُ عَنْهُمْ فِيمَا يَتَفَرَّدُ بِهِ. وَقَالَ : إِنَّمَا حَدِيثُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَهْلِ الشَّامِ. وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ مِنْ بَقِيَّةَ. وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنِ الثِّقَاتِ. حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ذَلِكَ. (سنن الترمذي رقم الحديث ١٣١ أبْوَابٌ : الطَّهَارَةُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : الْجُنُبُ وَالْحَائِضُ لَا يَقْرَأَانِ الْقُرْآنَ)

أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ فِي الْحَائِضِ، قَالَ : لَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ.
حكم الحديث: إسناده صحيح. (سنن الدارمي ١٠٣٥ كِتَابُ الطَّهَارَةِ. | بَابٌ : الْحَائِضُ تَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ)

كتبه العبد محمد زبير الندوى
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 16/1/1442
رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔