ہمارے متعدد قارئین کا پچھلے کئی مہینوں سے، جب سے لاک ڈاؤن نافذ ہے، اصرار ہے کہ میں موجودہ دور میں آن لائن تعلیم کی اہمیت کے سلسلہ میں کچھ لکھوں، اور مدارس اسلامیہ میں جدید ذرائع تعلیم سے استفادہ کیوں کر ممکن ہو، اس پر اظہار خیال کروں، لیکن گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے اور اس لائن کا زیادہ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے میں لکھنے سے قاصر رہا، ہمارے بعض ساتھیوں نے پیہم تقاضا کیا تو داعیہ پیدا ہوا کہ چلو اس موضوع پر بھی کچھ لکھتے ہیں، کچھ دنوں پہلے ہمارے مخلص و مہربان اور کرم فرما جناب مولانا شکیل اعظمی ندوی صاحب مقیم بحرین کا ایک مضمون نظر سے گزرا ، جو کافی وقیع اور معلوماتی تھا، (جناب اعظمی صاحب کافی عرصہ سے بحرین میں مقیم ہیں،جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے معاصر ہیں، بحرین کی شہریت بھی ملی ہوئی ہے۔ مولانا اعظمی صاحب کو وسیع علمی اور تربیتی تجربہ ہے، وہ بحرین میں ابن الہیثم اسلامک اسکول چلاتے ہیں جو سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن دہلی سے تسلیم شدہ ہے، پچیس سو طلبہ و طالبات پہلی جماعت سے بارہویں تک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ) ارادہ ہوا کہ اسی مضمون کو موصوف کی اجازت سے قارئین باتمکیین کی خدمت میں لاحقہ اور سابقہ کے ساتھ پیش کر دوں۔۔ م ق ن۔۔
جدید ذرائع تعلیم سے استفادہ میں مدارس اسلامیہ کے لوگ بخیل واقع ہوئے ہیں، یا یہ کہیئے کہ ان کی توجہ اس جانب بہت کم ہے، جو بہت افسوس کی بات ہے۔ اسلام نے ہر دور میں جدید ذرائع و وسائل سے استفادہ کی ترغیب دیا، اسلام نہ کسی علم کا مخالف ہے اور نہ کسی زبان کا، میڈیکل تعلیم ہو، انجنیرنگ کا فن ہو یا تکنیکی تعلیم کے دوسرے شعبے ہوں یہ سب مطلوب ہیں اور انسانی خدمت اور فلاح و بہبود کے ذرائع ہیں، اور یہ سب علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں، قرآن پاک نے کتنے ہی ایسے حقائق پر روشنی ڈالی ہے جن کا تعلق فلکیات، طبعیات، نباتات اور حیوانات کے علوم سے ہے، خود انسان کی اندرونی جسمانی کیفیات، اس کی مرحلہ وار پیدائش اور اس کی نفسیات کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے، گزشتہ اقوام کے قصص و واقعات ذکر کئے گئے ہیں، اور نہ جانے کتنے علوم و فنون ہیں جس کی تفصیلات قرآن مجید میں موجود ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں دوسری اقوام سے جو جدید تکنیک حاصل ہوسکتی تھی، اس میں کسی بخل سے کام نہیں لیا اور اس کو دین کے تقاضے کے منافی نہیں سمجھا، آپ نے انصار صحابہ کرام کو جو زیادہ تر کاشت کاری کرتے تھے۔۔تابیر۔۔کی اجازت یہ کہہ کر دی کہ انتم اعلم نامور دنیاکم، کھجور کے نر اور مادہ میں اختلاط کی ایک صورت کو تابیر کہا جاتا ہے، اس سے کجھور کا حجم بڑا ہوتا تھا، آپ نے بعض غزوات اور جنگوں میں منجنیق کا استعمال فرمایا یہ گویا اس زمانہ کی توپ تھی، جب آپ نے بنو ثقیف پر فوج کشی کی تو بنو ثقیف کی ماہرانہ تیر اندازی نے مجاہدین کو مشقت میں ڈال دیا اس موقع پر آپ نے ایسی گاڑیاں بنوائیں، جس پر اوپر چمڑے کا غلاف ڈالا گیا تاکہ دشمن کے تیر چمڑے میں پھنس کر رہ جائیں، غزوئہ خندق میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر آپ نے میدان جنگ کی پشت پر پہاڑیوں کو رکھتے ہوئے آگے کی سمت سے طویل و عریض خندق کھدوائی، یہ عربوں کے لیے بالکل ایک نیا تجربہ تھا، اور جس سے متحدہ قوت کو شکست دینا آسان ہوا۔
ان تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ جدید تیکنک سے مسلمانوں کو بھر پور استفادہ کرنا چاہیے اور اس سے قوم و ملت اور دین و شریعت کی خدمت کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
کووڈ 19 کی وجہ سے زندگی کی اکثر و بیشتر سرگرمیاں ٹھپ سی پڑ گئی ہیں ۔تجارت و صنعت سے جڑے سبھی سیکٹر متاثر ہوئے ہیں ۔جو جہاں ہے وہیں مقید ہو کر رہ گیا ہے ۔عالمی سطح پر شعبہ ہوا بازی و سیاحت کا تو خاتمہ ہو گیا ہے ۔سول ایوی ایشن کی کئی ایک بڑی کمپنیاں یا تو افلاس کا اعلان کر چکی ہیں یا افلاس کے دہانے پر ہیں صنعتی یونٹوں میں زبردست مندی آئی ہے۔ پٹرول سستا ہونے کے باوجود اس کی کھپت نہیں ہے کیونکہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر نقل و حرکت کچھ عرصہ تک مکمل بند تھی اور اب روڈ ٹرانسپورٹ میں کچھ حرکت تو آئی ہے لیکن بہت ہی محدود پیمانے پر ۔اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے دنیا کا ہر ملک فکر مند ہے اور کورونا کے ختم نہ ہونے کے باوجود اب لاک ڈاون اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔
تعلیمی شعبہ بھی تمام قوموں اور ملکوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور حصول علم کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری و غیر سرکاری ہر سطح پر بھرپور کوششیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ جدید سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی نے تعلیمی و تدریسی میدان میں بڑی آسانیاں فراہم کر دی ہیں ۔کچھ سافٹ وئیر اور ٹیکنالوجی تو پہلے سے موجود تھے مگر ان کا استعمال کم تھا یا بے توجہی کا شکار تھے مگر ضرورت اور مجبوری نے ان کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کر دیا تو معلمین و معلمات اور تدریسی شعبے سے وابستہ تمام افراد کو ان کی افادیت کا صحیح اندازہ ہوا نیز گزشتہ چار پانچ مہینوں میں پہلے سے موجود سافٹ وئیر اور ٹیکنالوجی میں بہتری و ترقی کے ساتھ کئی نئے سافٹ ویئر بھی وجود میں آ چکے ہیں جن کی مدد سے نہ صرف یہ کہ تعلیم و تدریس کی فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملی بلکہ اندازہ یہ ہوا کہ ان آلات و وسائل کے مدد سے معیار تعلیم و تعلم روایتی طریقے کے مقابلے میں زیادہ موثر اور کارگر ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سارے پلیٹ فارم مفت یا بہت کم لاگت پر مہیا ہیں ۔ان میں آجکل zoom اور meet بہت مشہور و معروف ہیں ۔
دینی مدارس ہی کی طرح ابتدا میں عصری تعلیمی اداروں میں بھی معلمین و معلمات جدید ذرائع تعلیم کو بآسانی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ہمارے یہاں ( بحرین اور خلیجی ممالک ) وزارت تعلیم و تربیت کی کوالٹی کنٹرول ٹیم کی طرف سے کئی سالوں سے مدارس پر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے مسلسل بڑا دباو تھا چنانچہ لیپ ٹاپ، پروجیکٹر اسمارٹ بورڈ آڈیو ویژول فیسیلٹی اور سافٹ وئیر وغیرہ تقریبا تمام اسکولوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم یا زیادہ مہنگے یا سستے ادوات و آلات فراہم کئے تھے مگر خاص طور پر ہندوستانی ٹیچرز ان کے استعمال میں بہت سست اور متردد تھے اور کسی طرح جدید ٹیکنالوجی کے حق میں نہ تھے اور ہر ممکن کوشش ہوتی کہ انہیں بے سود ثابت کیا جائے ۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی طرف سے بے اعتنائی اور بے توجہی کے معاملے میں دینی مدارس اور عصری اسکولوں میں کوئی فرق نہیں، فرق اگر ہے تو یہ کہ مدارس میں ٹیکنالوجی کا نہ تو تعارف کرایا گیا اور نہ اس کے استعمال کی تدریب و تربیت کا اہتمام کیا گیا جبکہ خود ہمارے اسکول میں ٹیچنگ ٹیکنالوجی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے تدریبی ورکشاپ منعقد کیے گئے مگر نتیجہ کوئی خاطر خواہ نہ برآمد ہوا ۔مگر اب جب کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا اور یہ کہ جو ٹیچر ورچول کلاسز virtual classes لیں گے وہی رہیں گے باقی سب کی چھٹی تو مجبورا ہی سہی سب تیار ہو گئے اور تدریجی طور پر معلمین و معلمات کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی اور ان کی پرفارمنس میں بہتری آتی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ طلبہ و اساتذہ سب ورچول کلاسز کی افادیت نافعیت اور کارگر ہونے پر متفق ہیں اور شاید کورونا کے خاتمے کے بعد بھی اب اکثر و بیشتر بہت ساری کلاسز آن لائن ہی ہوا کریں گی ۔
مستقبل قریب کی صورتحال واضح نہیں ہے کہ ہندوستان میں کب سے تعلیمی ادارے کھلیں گے اور طلبہ کی حاضری ممکن ہو سکے گی ۔ فرض کر لیا جائے کہ حکومت کی طرف سے دو ماہ بعد مدارس کھلنے کی اجازت مل جائے گی تو کیا ہمارے دینی اسلامی مدارس اس پوزیشن میں ہوں گے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی کر سکیں اور وہ تمام اشیاء ضروریہ فراہم کر سکیں گے جن کا ہونا مدارس میں لازمی ہوگا ۔ تقریبا تمام بڑے مدارس میں طلبہ نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا قیام بھی وہیں ہوتا ہے اور ماکل و مشرب اور ملبس سب کچھ کیمپس کی چہار دیواری کے اندر ہوتا ہے ایسے میں کلاس روم اور بورڈنگ روم دونوں جگہ طلبہ کی موجودہ تعداد کے لئے سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل درآمد ناممکن ہوگا ۔ نیز سینیٹائزرس ، ماسک اور بار بار ہاتھ دھلنے کے لئے جگہ جگہ نل اور لیکوڈ سوپ کی فراہمی دشوار ہوگی ۔ اور بہت سارے اقدامات کرنے ہوں گے جن کی تفصیل کا ابھی موقع نہیں ہے ۔خدا نخواستہ ایک طالبعلم بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوا تو انتظامیہ کے لئے ایک مصیبت کھڑی ہو جائے گی لہذا جب تک حکومت کی طرف سے شہر اور ملک کو کورونا فری ہونے کا اعلان نہیں کر دیا جاتا، کسی بڑے ادارے کے لئے کیمپس کے اندر طلبہ کو جمع کرنا اور تعلیمی سرگرمی شروع کرنا ممکن نہ ہوگا ۔
اب ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ ادارہ بند ہی رہے ؟ اساتذہ بغیر تنخواہ کے رہیں یا تنخواہ تو لیں مگر کریں کچھ نہیں؟ میرے خیال میں طلبہ کے تعلیمی سال کو ضائع کرنا کسی حال میں درست نہیں لہذا مدارس کے ذمہ داران کو تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کے لئے مشترکہ یا انفرادی جدوجہد کرنی چاہئے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ ان شاء اللہ e-learning التعليم الإلكتروني أو التعليم عن بعد أو التعليم الافتراضي ( virtual classes ) کا تجربہ بہت کامیاب اور مفید ثابت ہوگا ۔ا?? سے نہ صرف آسانیاں پیدا ہوں گی اور تعلیمی معیار بلند ہوگا بلکہ اخراجات میں بھی بہت کمی آئے گی ۔ پہلے مرحلے میں کمپیوٹر وغیرہ کی فراہمی پر کچھ لاگت آئے گی مگر لانگ ٹرم پر اس سے بہت بچت ہوگی ۔
آن لائن تعلیمی نظام شروع کرتے وقت ابتدا میں صرف یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ہر جگہ انٹرنیٹ لائن موجود نہیں ہے یا ہر طالبعلم کے پاس موبائل یا ٹیبلٹ/ آئی پیڈ موجود نہیں ہے تو بلاشبہ ابھی موجودہ حالات میں بعض علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم فراہمی کی شکایت درست ہو سکتی ہے مگر امید ہے کہ بہت جلد ہندوستان کا کوئی خطہ باقی نہ رہے گا جہاں مضبوط انٹرنیٹ لائن نہ ہو اس لئے کہ حکومت بھی اسکولی سطح سے لے کر اعلی جامعاتی تعلیم کے لئے ڈسٹینس لرننگ کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسی طرح نادار طلبہ کے لئے ادارے کی طرف سے موبائل/ ٹیبلٹ اور آئی پیڈ بھی فراہم کئے جا سکیں گے انہیں دار الاقامہ میں قیام کے لئے جو وظیفہ دیا جاتا ہے اس کے معمولی جز سے آئی پیڈ قابل واپسی دیا جا سکتا ہے ۔ آخری بات یہ ہوگی کہ اگر مان لیا جائے کہ پانچ یا دس فیصد پھر بھی محروم رہ سکتے ہیں تو بہرحال ان کی وجہ سے نوے اور پچانوے فیصد کو محروم کرنا دانشمندی نہیں ہے ۔
آئی پیڈ اور درسیات کے بارے میں یہ بات آپ حضرات کے علم میں لانا چاہوں گا کہ اب کئی کمپنیاں ہندوستان میں ایسی موجود ہیں جو سی بی ایس ای یا اسٹیٹ بورڈ کی کتابیں درجہ بدرجہ پیڈ پر اچھی قیمت پر فراہم کر رہی ہیں مثلا چھٹی جماعت کی تمام کتابیں پیڈ پر موجود رہیں گی اور طالبعلم کے استفادہ کے لئے اتنے فنکشنز ہوں گے کہ مدارس کے لوگ جنہوں نے دیکھا نہیں ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ندوہ العلماء اور دار العلوم دیوبند جیسے اداروں کو تو فورا اس کی تیاری اور فراہمی کا کام شروع کر دینا چاہئے ۔ندوة العلماء کی کئی شاخیں ہیں اور ملحقہ مدارس کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اس لئے وہاں ہر ایک درجہ اور جماعت کے لئے بڑی تعداد میں ٹیکسٹ بکس کے ساتھ آئی پیڈ کی ضرورت پڑے گی ۔تعداد کے اضافہ سے قیمت میں کمی ہوگی ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس سے مدارس میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ دیوبند کی مطبوعہ غیر معیاری ضخیم مجلدات سے چھٹکارا مل جائے گا جسے ہم آپ سب كمثل الحمار يحمل اسفارا کی طرح ڈھوتے رہے ہیں ۔یہ موضوع اور اس سے متعلق تفصیلات کافی وسیع ہیں انہیں تو گفتگو کے ذریعہ ہی بتایا اور سمجھایا جا سکتا ہے ۔ بہرحال اتنا جان لینا چاہئے کہ کتابوں کے ساتھ تعلم کے لئے پیڈ کی فراہمی بہت سستی اور مفید ثابت ہوگی ۔ ہمارے موقر گروپ میں جو حضرات کسی مدرسے سے وابستہ ہیں اور ان کے یہاں اب تک آن لائن تعلیم کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنے آس پاس کسی سی بی ایس ای اسکول کو وزٹ کریں اور ان سے تبادلہ خیال کریں ابتدائی کوشش ہی بہترین انجام تک پہنچائی ہوگی ۔ آخر میں میں مولانا نظام الدین صاحب اور مولانا نعمت اللہ صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان حضرات نے اس موضوع پر قیمتی خیالات کا اظہار کیا ۔ ان شاء اللہ ندوة العلماء اس معاملے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرے گا ۔